مشرقی چمپارن(بہار) : ہندو توا تنظیموں کے حملہ میں زخمی ایک نوجوان نے کہا کہ وہ اسپتال سے گھر کی طرف جارہا تھا، راستہ میں ہندو توا تنظیم کے لوگوں نے انہیں پکڑلیا اور جئے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا ۔ اس مسلم نوجوان نے وقت او رحالات کے پیش نظر ان بدمعاشوں کی خواہش پر مذکورہ نعرہ لگایا ۔پھر ان لوگوں نے اس نوجوان پر رحم نہیں کیا اور اسے بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کردیا ۔
بہار کے مشرقی چمپارن ضلع میں یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا ۔ اس ضلع میں پچھلے کچھ دنوں سے حالات کشیدہ ہورہے ہیں ۔ اسی وجہ سے یہاں یوم عاشورا ء کے غم حسینؓ کے موقع پر جلسے او رجلوس پر امتناع عائد کیاگیا تھا ۔ جب کہ پورے بہار میں نہایت عقیدت و محبت سے شہادت امام حسین منایا گیا ۔ مقامی مسلمانوں نے معمولی طور پر شہادت امام حسین نکالنے کا فیصلہ کیا ۔لیکن جب ڈھاکہ کے مسلمانوں نے ۲۳؍ ستمبر کے روز جلوس نکالا تو اس پر اینٹ او رپتھر وں سے حملہ کیاگیا ۔ اس حملے میں درجنوں لوگ زخمی ہوگئے ۔ موتیہار ضلع کے رکسا رحیم پور باشندہ نسیم نے بتایا کہ آر ایس یس او ربجرنگ دل کے لوگوں نے ماحول خراب کرنے کی پوری تیاری کررکھی تھی ۔
نسیم نے مزید بتایا کہ محرم جلوس پر ہندو شدت پسندوں نے گھروں کی چھتوں سے پتھراؤ کیا ۔ اینٹوں سے بھی حملہ کیاگیا ۔ بعض شدت پسند ہندو سڑکوں پر مسلمانوں کو پیٹ ر ہے تھے ۔دریں اثناء ایک مسلم نوجوان اسپتال سے بذریعہ بائیک اپنے گھر واپس لوٹ رہا تھا ۔ان ظالموں نے اس نوجوان کا نام پوچھ کر اسے بھی خوب مارا پیٹا ۔ ان ظلم انتہا یہ ہوگئی کہ ان ظالموں نے اس ایک ہاتھ اس کے جسم سے جدا کرڈالا ۔ اسی دوران کسی نے اس کاایک ویڈیو بنایا جس میں وہ لڑکا کہہ رہا ہے کہ ’’ میں دہلی کا رہنے والا ہو ں۔یہاں ماموں کا بیٹا اسپتال میں زیر علاج ہے۔
ا س کی مزاج پرسی کیلئے میں یہاں آیا تھا ۔سڑک پر کچھ ہندو لوگوں نے مجھے پکڑ کر جئے شری رام کا نعرہ لگانے کیلئے کہا تو میں نے یہ نعرہ لگایا ۔ میں جلوس میں شریک نہیں تھا ۔میں اسپتال ماموں کے لڑکے کو دیکھنے گیا ہوا تھا ۔‘‘ لیکن پھر بھی انہوں نے مجھ پر حملہ کردیا ۔ اس نوجوان کے علاوہ ڈھاکہ اور موتیہار میں اقلیتی طبقہ کے تقریبا ایک درجن لوگوں کو زخمی کیاگیا ۔