جموں: بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو نے کہا کہ جموں و کشمیر کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی کو پاکستان سے مذاکرات کے حوالہ سے فیصلہ کر نے کا کوئی حق نہیں ۔انھوں نے کہا کہ اگر مفتی کو لگتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات سے دراندازی بند اور وادی میں امن و فضا کی لہر دوڑے گی تو یہ انکی رائے ہے۔لیکن انہیں مذاکرات کا فیصلہ لینے کا کوئی حق نہیں ۔فیصلہ لینا مرکز کا کام ہے۔رام مادھو نے مزید کہا کہ پاکستان سے مذاکرات لینا ہے یا نہیں۔ریاستی حکومت کو اس کا فیصلے لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔یہ فیصلہ لینا حکومت ہندوستان کا کام ہے۔
ہاں محبوبہ مفتی اپنی رائے دے سکتی ہے۔واضح رہے کہ دو ماہ سے وزیر اعلی محبوبہ مفتی متعدد مرتبہ پاکستان سے مذاکرات کر نے کی وکالت کی ہے۔انھوں نے ۱۲ فروری کو ٹوئیٹر پر کہا تھا کہ تشدد کے خاتمہ کے لئے پاکستان سے بات چیت لازمی ہے۔جمو ں و کشمیر کے لوگ اس وقت مصیبت میں ہے۔ہمیں بات چیت کر نا چاہئے۔اس کے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔اس سے قبل مفتی نے ریاستی اسمبلی میں کہا تھا کہ جموں و کشمیر کی عوام یہاں جاری تشدد سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔مذاکرات ہی معاملات کو حل کرنے اور نا خوشگوار حالات کے خاتمہ کا بہترین ذریعہ ہے۔یہاں کی عوا م پچھلے تیس سالوں سے تشدد کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔اور وہ ان مشکلات کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بہتر رشتو ں کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔
کب تک لوگ یو ہی مرتے رہیں گے۔اور ہم ان پر پھول ڈالتے رہیں گے۔محبوبہ مفتی کے اس ٹوئیٹ کے بعد ۱۳فروری کو بی جے پی نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان سے مذاکرات کی نہیں بلکہ اس کا منہ توڑجواب دینے کی ضرورت ہے۔پاکستان کے ساتھ کب اور کن حالات اور کیسے بات کرنی چاہئے ا سکا فیصلہ صرف مرکزی حکو مت کو ہے۔بی جے پی کے تر جمان نے کہا کہاگر پاکستان کے ساتھ بات ہوگی تو صرف مقبوضہ کشمیر کے مدہ پر بات ہوگی۔اس کو واپس حاصل کر نے پر ہوگی۔
انھوں نے مفتی کا نام لئے بغیر کہا کہ سجنوان ملٹری اسٹیشن پر حملہ سے یہ صاف ظاہر ہوگیاکہ عسکریت پسندوں کو مسلسل پاکستان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ایسے میں پاکستان سے مذاکرات کرنے سے فائدہ نہیں ۔مذاکرات کے بجائے پاکستان کو منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔