محبوبہ مفتی ایک جہادی چیف منسٹرہے۔ کتھوا عصمت ریزی کیس کے ملزم کے وکیل کا بیان۔

کتھوا عصمت ریزی کیس میں ملزمین کی نمائندگی کرنے والے وکیل انکور شرما نے کہاکہ’’ محبوبہ مفتی نے گاؤ ذبح کرنے والے اور جانوروں کی تسکری کرنے والوں کو قانونی حیثیت فراہم کی ہے۔ وہ جموں میں ہندو اکثریتی والے علاقوں میں جغرافیائی تبدیلیوں کے لئے اسلام کی فسطائی ایجنڈے کو نافد کرنے کاکام کررہی ہیں‘‘۔
سری نگر۔کتھوا میں بکر وال سماج کی معصوم لڑکی کے ساتھ عصمت ریزی اور اس کے بے رحمانہ قتل میں ملوث ملزمین کی دفاع کرنے والے وکیل نے چیف منسٹر محبوبہ مفتی کو ’’ جہادچیف منسٹر ‘‘ قراردیا ہے۔

پچھلے ماہ ایک تقریب سے خطاب کے دوران مذکورہ وکیل نے گجر او ربکروال طبقے کے سماجی بائیکاٹ کی عوام سے اپیل کرتے ہوئے چیف منسٹر محبوبہ مفتی پر الزام عائد کیا کہ وہ جموں کے ہندو اکثریتی والے علاقوں میں اسلام کی فسطائی طاقتوں کی اجارہ داری میں اضافہ کرتے ہوئے جغرافیائی تبدیلیاں لانے کی کوشش کررہی ہیں۔

انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے انکور شرما نے کہاکہ ’’ محبوبہ مفتی ایک جہادی ہیں۔ انہو ں نے گاؤں ذبیحہ کرنے والوں او رمیویشیوں کی تسکری کرنے والوں کو قانونی موقف فراہم کیاہے۔

وہ انپیں گجرس اور بکروالا قبائیلی طور پر پیش کررہی ہیں جو مسلمان ہیں اور کہاکہ سیکشن 188آر پی سی کے ان کے خلاف کاروائی کرنے سے روکتا ہے۔کتھوا عصمت ریزی کیس میں ملزمین کی نمائندگی کرنے والے وکیل انکور شرما نے کہاکہ’’ محبوبہ مفتی نے گاؤ ذبح کرنے والے اور جانوروں کی تسکری کرنے والوں کو قانونی حیثیت فراہم کی ہے۔

وہ جموں میں ہندو اکثریتی والے علاقوں میں جغرافیائی تبدیلیوں کے لئے اسلام کی فسطائی ایجنڈے کو نافد کرنے کاکام کررہی ہیں‘‘۔شرما اس کیس میں سانجی رام کی نمائندگی کررہا ہے اور جس کے نام کرائم برانچ نے کتھوا میں معصوم لڑکی کی عصمت ریزی او ربے رحمانہ قتل میں اصلی سرغنہ کے طو رپر پیش کیا ہے جس کا مقصد بکر وال سماج کے اندر علاقے میں خوف پیدا کرنا تھا اس کے علاوہ سانجی رام کا بیٹا ویشال جانگوترا اور پولیس افیسر دیپک کھجوراؤ بھی اس کیس کے اہم ملزمین میں شامل ہیں۔

اس نے دعوی کیا ہے کہ ’’ ہندو مہاسبھا کے صدر او رمہارشٹرا کی ہندو تنظیموں کی جانب سے اس کو فون کالس وصول ہوئی ‘‘۔ شرما نے کہاکہ وہ ہندو ایکتا منچ سے وابستہ ہے جس نے کتھوا میں پیش ائے عصمت ریزی کے دل دہلادینے والے واقعہ کے ملزمین کے تحفظ میں احتجاجی ریالی نکالی تھی او رمزیدکہاکہ ’’ سی بی ائی تحقیقات کے متعلق ان کے مطالبہ کی وہ حمایت بھی کرتا ہے‘‘۔

منچ کو ’’پرامن اور تشدد سے پاک تنظیم‘‘ قراردیتے ہوئے انکور نے کہاکہ ’’ اس کاقیام اس وقت عمل میں’’ جب لوگوں پر اسلامی حملے ہونے لگے‘‘ کیونکہ ’’ حریت کی پشت پناہی والے بکروال کارکنان ایک مخصوص طبقے کا نام لینا شروع کردیا‘‘۔

انہوں نے کہاکہ ’’ یہ محبوبہ مفتی کے متعلق اسلامی ہے اور یہ اسلامی ہے متاثرین کی شناخت کے لئے جس کا انکشاف ضروری ہے۔ اس میں ہندوکے متعلق ہندو ایکتا منچ کا کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔

محبوبہ مفتی کو تنقید کا نشانہ بنانے کے سلسلے کوجاری رکھتے ہوئے شرما نے ایک میٹنگ کے متعلق سوا ل کیاکہ فبروری میں جب چیف منسٹر نے عہدیداروں سے کہاتھا کہ جنگل کی جس زمین پر قبائیلی رہ رہے ہیں اس کو تب تک ’’ تبدیل‘‘ نہیں کیاجائے جب تک حکومت قبائیلی پالیسی کے قواعد نافذ نہیں کردیتی‘ او راخراج قبائیلی بہبود محکمہ کی اجازت سے ہی کیاجائے۔انکور شرما نے کہاکہ ’’ یہ احکامات ان کے لوگوں کے ہتھیار کا کام کرنے لگا۔

ہر کوئی جانتا ہے کہ جانتا ہے ریاستی اراضی ‘ جنگل کی زمین صرف یہ طبقے کے لوگ قبضہ کررہے ہیں۔ یہ لوگ باہر سے آتے ہیں اور سینکڑوں ایکڑ اراضی اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں‘‘۔

شرما نے قبائیلی طبقات پر الزام عائد کیا ہے کہ’’ وہ مہنگے دامو ں پان اسلامک فینانسل کرٹیل کی مدد سے اراضی خریدتے ہیں‘‘ ۔انہوں نے کہاکہ ’’باہر سے آنے والے مسلمان پہلے سے ہی بھاری قیمت کے عوض اراضی خریدتے ہیں ‘ مارکٹ سے دیڑھ گناہ زیادہ رقم کی وہ ادا کرتے ہیں۔

اسلامی ممالک کی تنظیموں کی مدد سے یہاں پر کچھ این جی اوز سرگرم عمل ہیں۔ ہندو اکثریتی والے علاقوں میں اراضی خریدنے پر یہ لوگ چالیس فیصد تک کی رعایت فراہم کرتے ہیں۔ سابق میںیہ رعایت پچیس فیصد تھی‘‘۔ وہیں گجر اور بکروال ریاست کا معاملہ ہوتے تو ’ وہ کبھی ہمارے خلاف سازش نہیں کرتے۔

شرما نے کہاکہ ’ ’ وہ امن وہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتے ہں مگر ہم انہیںیہاں پر جغرافیائی تبدیلیاں لانے کی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ وہ لوگ غریب او ربے قصور لوگ ہیں۔ مگر وہ خاموشی کے ساتھ جموں کے ہندو ؤں کے خلاف زہر بھر رہے ہیں‘‘۔ شرما نے بی جے پی پر ان کے سیاسی حلقوں کو رہن پر رکھ دینے کا بھی الزام عائد کیا۔مارچ میں شرما کی ہندو ایکتا منچ سے ایک تقریر جس میں اس نے ملزمین کی حمایت کا اعلان کیاتھا ۔

جو وائیرل ہوئی او راس تقریر میں شرما نے گجر او ربکروال کے بائیکاٹ کے متعلق کہاتھا۔ ڈوگری میں شرما کو یہ کہتے ہوئے سنا گیاتھا کہ ’’ آج ہم یہاں اس بات کا عہد لیتے ہیں اور ہندو ایکتا منچ کا آج یہ یہی ایجنڈ ہ ہوگا کہ ہم باہر کے کسی بھی شخص کو ہماری زمین فروخت نہیں کریں گے۔ وہ لوگ ایک پلان کے تحت کام کررہے ہیں۔ لہذا تمہیں غور وفکر کی ضرورت ہے‘ اور پہلے آپ یہ فیصلہ کرلیں گے کے انہیں اپنی زمین فروخت نہیں کرنا ہے۔

پھر اس کے بعد انہیںیہاں پر مضبوط ومستحکم کرنے والی چیزیں جیسے کاروبار ‘ چار ہ ‘ گھانسی ‘ پتے وغیرہ ہیں اس کابائیکاٹ کریں۔ یہ تمام چیزیں تمہیں روکنا پڑیگا ۔ یہی تمہارے خلاف سازشوں کاحصہ ہیں‘‘۔شرما نے اس قسم کی تقریر کرنے کی بات بھی قبول کی ہے ‘ شرما نے کہاکہ ریاست کے تمام سرکاری عہدیدار ایس ایس پی سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک ‘’ دوسری جانب کھڑے تھے‘‘۔