نئی دہلی۔لوک سبھا2019الیکشن کے لئے سیاسی پارٹیاں اپنی حکمت عملی تیار کرنے میں جٹے ہوئے ہیں۔دونو ں بڑی پارٹیاں نئے گٹھ جوڑ کی تیاری میں لگی ہوئی ہیں مگر ان کے سامنے سیٹوں کی تقسیم سب سے بڑا مسئلہ بن کر سامنے آرہا ہے۔
پہلے جہاں پر بی جے پی ایک جونیر پارٹی کے طور پر تھی وہاں پر اب اس نے اپنا دبابہ بڑھایا ہے۔ جس کی وجہہ سے مقامی جماعتوں کے لئے چیلنج میں اضافہ ہوا ہے۔
جو پارٹیاں بی جے پی کے خلاف ہیں ان کے لئے چیلنج دوسری پارٹیوں ہیں جن کو اپنے نظریات کے خلاف جاکر بی جے پی کو شکست دینے کی تیاری کرنا ہے۔ایسی بھی پارٹیاں ہیں جن کی کانگریس سے بڑی مخالفت ہے او روہ اس گٹھ جوڑ میں شامل نہیں ہوسکتی جن میں کانگریس شامل ہے۔
جبکہ کچھ پارٹیاں ابھی اپنا ارادہ ظاہر کرنے سے بچ رہی ہیں۔ ایسی پارٹیاں حالات کاجائزہ لے کر اس خیمہ میں جڑناچاہتی ہیں جس سے جیت یقینی ہو۔
توقع یہ بھی کی جارہی ہے کہ نتائج سامنے آنے کے بعد فیصلے ہونگے۔ ریاستی سطح پر حالات فی الحال کچھ اس طرح کے ہیں۔اترپردیش جہاں پر 80لوک سبھا سیٹیں ہیں۔
یہاں سے 2014میں بی جے پی نے 71سیٹوں پر جیت حاصل کی جبکہ ساتھی پارٹیوں نے دو پر اپنا قبضہ جمایا ۔ ایس پی نے پانچ اور کانگریس محض دوسیٹو ں پر جیت حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔
ا س چناؤ میں سب سے بڑا جھٹکا بی ایس پی کولگا تھا کیونکہ اس نے اپنا کھاتہ بھی نہیں کھولاتھا۔ریاست میں ہوئے 2017کے اسمبلی انتخابات میں بھی پارٹیوں کواس وقت بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑاتھاجب بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے نے 403سیٹوں کے ایوان اسمبلی میں 325پر جیت حاصل کی تھی ۔
یہاں پر ایس پی‘ بی ایس پی‘ آر ایل ڈی اور کانگریس کومتحدہوکر بی جے پی سے مقابلہ کرنا پڑا تھا۔
ان سیاسی پارٹیوں نے گورکھپور ‘ پھلپور او رکیرانہ کے ضمنی انتخابات میں متحدہ اپوزیشن کا بھی ایک تجربہ کیاجو ان پارٹیوں کے حق میں گیا۔ ایسے میں وہ اگلے انتخابات کے لئے کافی جوش وخروش میں دیکھائی دے رہے ہیں۔
سال2019میں سیٹوں کی تقسیم ایک بڑا چیلنج ہے۔ پچھلے لوک سبھا الیکشن میں بی ایس پی 34سیٹوں پر دوسرے نمبرپر رہی جبکہ ایس پی 31سیٹوں پر دوسرے نمبر پر تھی کانگریس چھ اور آرایل ڈی و عام آدمی پارٹی ایک ایک سیٹ پر دوسرے نمبر پر رہے۔
اگر اس فارمولہ کو قبول کیاجاتا ہے تو ایس پی 36( پانچ جہاں سے اس نے جیت حاصل کی اور 31جہاں سے وہ دوسرے نمبر پر رہی
بی ایس پی 34وہیں کانگریس دو سیٹ جس پر کامیابی حاصل کی اور چار سیٹ جہاں سے وہ دوسرے نمبر پر رہی اسی طرح اس کے حق میں اٹھ سیٹ‘ جبکہ آر ایل ڈی کم سے کم تین سیٹوں کی مانگ کرسکتی ہے۔
تشویش یہ ہے کہ بی ایس پی ‘ کانگریس اور آر ایل ڈی زیادہ سیٹوں کی مانگ کرسکتے ہیں جبکہ مایاوتی اپنے ووٹ بینک دوسر ی پارٹیوں کو ٹرانسفر کرسکتی ہیں‘ توقع یہ بھی کی جارہی ہے کہ معاملہ اس کا الٹا بھی ہوسکتا ہے۔
وہیں مہارشٹرا جہاں پر 48لوک سبھا کی سیٹیں ہیں۔پچھلے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی نے یہا ں پر 24سیٹیں حاصل کی تھی جبکہ شیوسینا نے اٹھارہ پر کامیابی حاصل کی اور این سی پی نے چھ اور کانگریس و علاقائی اتحاد کو ایک ایک سیٹ پر جیت ملی۔
شیوسینا نے اعلان کیاہے کہ وہ 2019الیکشن بی جے پی کے ساتھ مل کر نہیں لڑے گی۔ جبکہ بی جے پی کو اس بات کایقین ہے کہ گٹھ جوڑ آگے بھی برقرار رہے گا۔
فی الحال مہارشٹرا میں بی جے پی شیوسینا کے مقابلے میں بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔حالیہ ضمنی انتخابات میں کانگریس اور این سی پی نے ساتھ مل کر لڑا اور توقع کی جارہی ہے کہ اگلا لوک سبھا الیکشن بھی وہ ساتھ مل کر لڑیں گے۔
بی جے پی او رشیوسینا حکمرانی کی لہر کا سامنا کرنے کے لئے دونوں کا ساتھ رہنا بھی ضروری ہے۔مغربی بنگال سال2014کے انتخابات میںیہاں سے ترنمول کانگریس نے 34کانگریس نے چار سی پی ائی ایم او ربی جے پی نے دودوسیٹوں پر جیت حاصل کی تھی
۔بی جے پی 2019میں یہا ں سے بیس سے زیادہ سیٹوں پر جیت کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں یہاں پر بی جے پی کا ووٹ شیئر بڑھا او رپارٹی ریاست کی اہم اپوزیشن کے طور پر یہاں ابھری ہے۔
بہار چالیس لوک سبھا پر مشتمل ریاست ہے یہاں سے 2014میں بی جے پی کو 22جیت حاصل ہوئی تھی جبکہ آر ایل ایس پی کو تین پر کامیابی ملی ۔ تنہا الیکشن لڑنے والی جے ڈی یو کو صرف دو اور آر جے ڈی کو چار او رکانگریس نے ایک سیٹ پر جیت حاصل کی تھی۔
اسمبلی الیکشن میں جے ڈی یو ‘ آر ایل ڈی کانگریس کیساتھ مل کر میدان میں اترے مگر بعد میں جے ڈی یو نے آر جے ڈی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے این ڈی اے کیمپ میں دوبارہ شامل ہوگئی۔
آج کے وقت میں بی جے پی اپنی ساتھی جے ڈی یو ‘ ایل جے پی اور آر ایل ایس پی کو لے کر خود ہی مطمئن نہیں ہے۔ مجوزہ2019میں سیٹوں کی تقسیم کا مسئلہ پر بہار کے حالات کو معمول پر ہی داؤ پیچ کا مرحلہ اب بھی برقرار ہے۔ جے ڈی یو زیادہ سیٹوں کی مانگ کررہی ہے ۔
آر ایل ایس پی بھی اپنا اثر بڑھانا چاہتی ہے اور اسی ڈر اس بات کا ہے کہ جے ڈی یو کی وجہہ سے اس کا سیٹ شیئر کہیں کم نہ ہوجائے ۔
یہاں پر بی جے پی کے لئے سب سے بڑی تشویش آر جے ڈی کا بڑھتی عوام مقبولیت ہے کیونکہ یادو او رمسلم ووٹرس پارٹی کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں وہیں جیتن رام مانجھی کے این ڈی سے الگ ہونے کے بعد ایم بی سی ووٹرس کو لے کر بی جے پی کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔
کرناٹک جہاں پر 28سیٹیں ہیں پچھلے لو ک سبھا الیکشن میں یہاں سے بی جے پی نے 17کانگریس نے 9جبکہ جے ڈی ایس نے دو سیٹیوں پر جیت حاصل کی تھی ۔
یہاں پر حال ہی میں کانگریس او رجے ڈی ایس نے ساتھ ملکر حکومت بنائی ہے ‘ ایسے میں2019میں ان کا گٹھ جوڑ بی جے پی کے لئے مشکل کھڑا کرسکتا ہے ۔ یہاں پر بی جے پی کو اس بات کی امید ہے کہ 2019کے لوک سبھا الیکشن سے پہلے ہی ایچ ڈی کمارا سوامی کی حکومت گرجائے۔
آندھرا پردیش یہا ں سے ٹی ڈی پی نے پندرہ جبکہ وی آر سی پی نے 8اور بی جے پی نے دو سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی ‘ اس وقت بی جے پی کا ٹی ڈی پی کے ساتھ الائنس تھا۔ اس وقت ٹی ڈی پی این ڈی اے کے باہر ہے اور اس نے آندھرا کو خصوصی موقف فراہم نہ کرنے کا بی جے پی پر لگایاہے ۔
وائی ایس آر سی پی بھی اپنا سخت موقف دیکھا رہی ہے۔ مجوزہ 2019لوک سبھا الیکشن کے لئے انتخابات سے قبل آندھرا پردیش میں کسی قسم کی سیاسی گٹھ جوڑ کے آثار دیکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ ٹی ڈی پی اور وائی ایس آر سی پی کے تمام فیصلوں کا انحصار لوک سبھا الیکشن کے نتائج پر ہے۔
جھارکھنڈ بی جے پی نے بارہ سیٹوں پر جیت حاصل کی جبکہ جے ایم ایم نے دوسیٹوں پر اپنا قبضہ جمایا۔ جے ایم ایم او رکانگریس 2019میں ہاتھ ملاسکتے ہیں۔ ریاست کی برسراقتدار بی جے پی پارٹی کو عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا ہوگااو راس میں اگلے لوک سبھا الیکشن میں اسی سونچ کے ساتھ انتخابی مفاہمت ممکن ہے۔
تلنگانہ کے 17لوک سبھا سیٹوں میں جہا ں پر2014میں ٹی آر ایس نے گیارہ جبکہ کانگریس نے دو سیٹو ں پر جیت حاصل کی اور بی جے پی ‘ وائی ایس آر سی پی ‘ٹی ڈی پی اور اے ائی ایم ائی ایم کو ایک ایک سیٹ پر جیت حاصل ہوئی تھی۔
مجوزہ 2019کے الیکشن میں مقابلہ کو سہ رخی کرنے کے لئے کسی بھی گٹھ جوڑ میں شامل ہوسکتی ہے۔ راجستھان ‘ گجرات ‘ مدھیہ پردیش آسام او رچھتیں گڑھ جیسی دوسری بڑی ریاستوں او رہماچل پردیش ‘ اتراکھنڈہ اور گوا جیسے چھوٹی ریاستوں میں بی جے پی او رکانگریس کے درمیان راست مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔
تاملناڈو جہاں پر38لوک سبھا سیٹیں ہیں وہ پر مقابلہ دلچسپ ہوگا۔ ڈی ایم کے نے کہاکہ وہ کانگریس کے ساتھ اپنے اتحاد کوبرقرار رکھے گی وہ اے ائی ڈی ایم کے کے مقابلے میں انتخابات جیتنے میں کافی مستحکم دیکھائی دے رہی ہے۔یہاں پر بی جے پی کے لئے امیدیں کافی کم نظر آرہی ہیں۔