وزیراعظم نریندر مودی نے جس مقبولیت اور اکثریت کے ساتھ2014کے عام انتخابات میں جیت حاصل کی تھی اس مرتبہ میں اس میں واضح کمی کے اثا ردیکھائی دے رہے ہیں او راسی وجہہ سے ملک میں حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ پر ایک پلیٹ فارم جمع ہونے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
جہاں پر متحد ہ اپوزیشن مودی حکومت کی ناکامیوں بالخصوص ترقی‘ تعلیم‘ بھوک مری‘ بے روزگاری اور ایسے دیگر مسائل پر تنقید یں کررہا ہے وہیں کچھ لیڈرس سرخیو ں میں رہنے کے لئے نئی سونچ کے ساتھ آگے آتے دیکھائی دے رہے ہیں۔
جی ہاں اور یہ نئی سونچ نفرت بھری تقریرین‘ ایک دوسرے پر بھدے تبصروں کی شکل میں رونما ہورہے ہیں۔ دونوں ہی برسراقتدار اور حزب اختلاف کی جماعتیں ایک دوسرے پر بھدے تبصروں‘ بے تکے بیانات کے ذریعہ سرخیوں میں رہنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
جہا ں تک ہندو مسلم تشدد او رگائے کی حفاظت کا معاملہ ہے تو سیاسی قائدین وقت پر کوئی تبصرے کرنے کے بجائے ایک ایسا نکتہ نظر پید ا کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ گائے کی حفاظت کو یقینی بنایاجائے اوراس معاملے کے ذریعہ اپنی آواز بلندکررہے ہیں۔
نہ تو قانون نہ ہی ائین میں اس طرح کا کوئی اخلاقی فرق ہمیں نظر آتا ہے۔جب کوئی بے قصور غیر انسانی حرکت کی وجہہ سے اپنے جان گنواتا ہے تو اس وقت دونوں کا مذہب اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔
جب کوئی فوجی سرحد پر اپنے وطن عزیز کے لئے جان کی قربانی دیتا ہے تو مذہب کے متعلق بات کی جاتی ہے‘ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے فریج میں کیا رکھا اس کو وہ فیصلہ کریں گے‘ اور کس رنگ کے کپڑے ہمیں پہننا ہے‘ ان دنوں وطن پرستی سیاسی پارٹی کی حمایت کی بنیادپر طئے کی جارہی ہے۔
اگر کوئی حکومت کے خلاف بات کرتا ہے تو وہ ملک دشمن قراردیا جاتا ہے ‘ اگر نہیں کرتا تو بزدل ٹہرادیاجاتا ہے۔
ملک میں کچھ دنوں سے ایسا کھیل کھیلا جارہا ہے اور اب اس کے جراثیم دوسرے لیڈروں تک بھی پہنچ گئے ہیں ‘ کیونکہ ہر کوئی سرخیوں میں رہنا چاہا رہا ہے۔اب یہ سوال پیدا ہورہے ہیں کہ لوگوں میں ان دنوں خوف ودہشت کا ماحول پیدا ہوگیاہے‘ لوگوں کا قانون پر سے بھروسہ ختم ہوتا جارہا ہے‘ یا سزا کو جو ڈر تھا کیا وہ ہمارے دماغ سے ختم کردیاگیاہے۔
ہجومی تشدد ‘ مارپیٹ‘ بدسلوکی‘ عصمت ریزی ‘ قتل اور نفرت پر مبنی جرائم کے واقعات میں اضافہ کی صورت حال ہمارے سامنے ہے او رہمارے سیاست داں ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹہرا رہے ہیں۔
یہ لوگ دیگر سیاسی جماعتوں پر ذمہ دار ٹہرارہے ہیں‘ اس کے طبقے‘ مذہب کو قصو ر وار ٹہرارہے ہیں جبکہ متاثرین کو مزید پریشان کرکے ان کے دلوں میں خوف او ردہشت کاماحول پیدا کردیاجارہا ہے۔
گروچو مارکس نے کہاتھا کہ’’ سیاست مسائل کی تلاش کا آر ٹ ہے‘ ہر جگہ تلاش کروں‘ غلط انداز میں اس کی تشخیص کرو‘ اور علاج کا غلط طریقہ کار اختیار کرو‘‘۔ گروچو مارکس نے جو بھی کہا ہے وہ ملک کے موجودہ حالات سے کافی میل کھاتا ہے کیونکہ ہندوستان فی الحال ان ہی حالات سے گذر رہا ہے۔
جہاں پر لوگوں کو اس لئے مارجارہا ہے کیونکہ وہ اپنے بنیادی حقوق پر عمل کررہے ہیں جو انہیں دستو ر ہند سے ملا ہے۔
ایسے حساس حالات میں جس میں اپنی پسند کی چیز کھانے پر اخلاق احمد کو ماردیاگیا۔
بے دردی کے ساتھ عورتوں کی عصمت ریزی کی جارہی ہے ‘ لوگوں کو اس طرح گھسیٹ کر زندہ جلادیاجارہا ہے جیسے انہوں نے کوئی بڑا گناہ کیاہے‘ جو بطور لڑکی پیدا ہوئے ہیں۔
اپنے دل کی بات کہنے پر انہیں قتل کردیاجارہا ہے‘ انہیں اس لئے قتل کیاجارہا ہے کیونکہ وہ عدم انصاف کے خلا ف آواز اٹھارہے ہیں۔افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کے پاس ہلت کارڈ تو مگر اسپتال ندارد ہیں۔
انہوں نے تعلیم کا وعدہ کیا مگر اسکول او رکالج ندارد ہیں۔ ملازمت کا بھروسہ دلایا مگر کوئی ذرائع دیکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ظعیف لوگوں کو وظیفہ کا یقین دلایاگیا مگر وہیں موظف فوجیوں کو اپنے حقوق مانگنے پر لاٹھیوں سے پیٹانے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا۔کئی مہینوں تک معصوم لڑکیوں کی عصمت ریزی اس مقام پر کی گئی جس کو انہیں محفوظ رکھنے کے لئے بنایاگیاتھا۔
دستور میں ملی آزادی کے مطابق اپنی پسند کی شادی کرنے والے جوڑی کو کسی تیسرے فریق کی برہمی کاسامنا کرنا پڑتاہے۔ دنیا کی عظیم جمہوریت ہمیں یہ کہنے پر مجبور کررہی ہے کہ وہ ملک کے چند مفاد پرست سیاست دانوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئی ہے۔
مارچ2017میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس بی ایس چوہان کی زیر قیادت لاء کمیشن نے ائی پی سی میں دو نئے زمرہ جات شامل کئے ہیں‘ جس میں نفرت پر مشتمل تقریروں ‘ بیان بازیوں کی سختی سے مذمت کی گئی ہے۔ حالانکہ بہت سارے قوانین سامنے ائے ہیں مگر اس سے لوگوں کے رویہ میں تبدیلی نظر نہیںآرہی ہے۔
یہ محض کچھ لوگوں او ران کے مذہب تک محدود نہیں ہے‘ یہ لوگ تاج محل جیسے قومی ورثے کو بھی مذہبی نفرت کے چشمہ سے دیکھتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال تاج محل ہی جس کے متعلق یوپی کے چیف منسٹر کا کہنا ہے وہ اسی غلامی کی نشانی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
وہیں ایک دوسرے لیڈرتاج محل کو اس لئے منہدم کرنے کی بات کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے لئے اہمیت کی جگہ نہیں ہے۔ اعظم خان سماج وادی پارٹی کے لیڈر چاہتے ہیں کہ نہ صرف تاج محل بلکہ وہ تمام غلامی کی نشانیو ں کو منہدم کردیں ۔
جس میں لال قلعہ‘ پارلیمنٹ‘ اگرہ کا قلعہ‘ راشٹرپتی بھون‘ قطب مینا ر شامل ہے۔حالیہ دنوں میں کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ ( اے ائی ایم پی ایل بی) نے ملک کے ہر ضلع میں شرعی بورڈ نافذ کرنے کی تجویز کے ذریعہ ایک نئے تنازع کو ہوا دی ہے۔
واضح کردیں کہ اس طرح درالقضاء( شرعی کورٹ)پہلے ہی ملک میں چل رہے ہیں تو یہاں پر ایسے موضوع کو اجاگر کرنے کی ضرورت نہیں۔
اس طرح کے مسائل کو اٹھاتے ہوئے راست یا بالراست ملک میں نفرت کی سیاست کو ہوادی جارہی ہے۔
یہا ں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو تمام چیزوں کو اپنے سیاسی مفاد کے لئے دیکھتے ہیں‘ مجوزہ2019کے عام انتخابات کے پیش نظر پارٹی میں اپنی پہچان بنانے کے لئے کچھ لوگوں اپنے متنازع بیانات کے ذریعہ سرخیوں میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی طرح راجا سنگھ نے حکومت سے کہا تھا کہ روہنگیائی مسلمانو ں کو گولی ماردی جائے او راب بنگلہ دیشی مسلم تارکین وطن کے سہارے اپنی سیاسی روٹیاں سیکھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
او راسدالدین اویسی نے اپنے حالیہ بیان میں کہاکہ وہ ہندوؤں کو داڑھی بڑھانے کے لئے مجبور کریں گے۔
عام طور پر اس طرح کے ایک دوسرے کے مقابلے میں بروقت سامنے آتے ہیں جس کو دیکھنے او رسننے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ منصوبے کے تحت کئے جانے والا کام ہوگا؟۔
https://www.youtube.com/watch?v=QDziugVRnYo
You must be logged in to post a comment.