مجروح سلطان پوری پر اردو غزل کو آج بھی ناز ہے ‘ پروفیسر اخترالواسع ۔مجروح کی غزلیں گہرے سماجی شعور کی آئینہ دار ہیں‘پروفیسر علی احمد فاطمی

راجستھان اردو اکادمی جے پور اور شعبہ اردو و فارسی راجستھان یونیورسٹی کے زیر اہتمام’’ مشعل جاں کا شاعر: مجروح‘‘ پر منعقدہ دوروزہ قومی سمینار اختتام پذیر
جئے پور۔ مجروح سلطان پوری پر اردو غزل کو آج بھی ناز ہے ۔انھوں نے اپنی شاعری میں فن اور سماج دونوں کے تقاضوں کو پورا کیا ۔مجروح دراصل اردو غزل سے محبت کا نام ہے ،فلمی نغمہ نگاری کی مقبولیت کا نام ہے ۔

ان خیالات کا اظہار مولاناآزاد یونی ورسٹی جودھ پور کے وائس چانسلر اور ممتاز دانشور پدم شری پروفیسر اخترالواسع نے راجستھان اردو اکادمی جے پور اور شعبہ اردو و فارسی راجستھان یونیورسٹی کے زیر اہتمام’’ مشعل جاں کا شاعر: مجروح‘‘ کے عنوان سے عنوان سے منعقدہ (۷۔۸،ستمبر)دو روزہ قومی سمینار کا افتتاح کرتے ہوئے کیا۔ قومی سمینار راجستھان یونیورسٹی کے اکیڈمک اسٹاف کالج میں منعقد ہوا.

صدارت ش ک نظام نے فرمائی۔کلیدی خطبہ معروف ترقی پسند نقاد پروفیسر علی احمد فاطمی نے پیش کیا۔راجستھان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر کوٹھاری بطور مہمان خصوصی کے شریک ہوئے ۔

للت پنوار اسکل یونیورسٹی راجستھان اور معروف فلمی اداکار جناب مراد علی مہمان اعزازی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔افتتاحی اجلاس کی نظامت اکیڈمی کے سکریٹری جناب معظم علی نے فرماء جبکہ اشرف علی خلجی چیر مین راجستھان اردو اکیڈمی نے مہمانوں کا استقبال کیا۔شکریے کی رسم ڈاکٹر حسین رضا نے ادا کیے۔.

سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ مجروح نے کم شاعری کی مگر جو کچھ کہا وہ اردو سے محبت کرنے والوں کے حافظہ کا حصہ ہے ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ مجروح کے فکر و فن کی داد دینے والوں کی ایک طویل فہرست ہے ۔ کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر علی احمد فاطمی نے کہا کہ مجروح بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے، باوجود اس ترقی پسند تحریک کے بیشتر شعرا نینظم کی طرف توجہ دے رکھی تھی ۔مجروح نے انھیں سماجی اور خارجی موضوعات کو غزل کے پیرائے میں پیش کیا۔

پروفیسر علی احمد فاطمی نے مزید کہا کہ مجروح نے تہذیب شاعری اور غزل کے انھیں مروجہ ادب و آداب کے ساتھ جس کے لیے غزل ممتاز و منفرد مقام رکھتی ہے اپنے گہرے سماجی شعور اور سیاسی رمزیت کے حوالے سے ترقی غزل میں ایک منفرد پہچان بنائی۔

پروفیسر فاطمی نے کہا کہ غزل کی سیاسی اور سماجی رمزیت کے تناظر میں مجروح کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور یہی سبب ہے کہ ان کی غزل آج بھی تازہ اور بامعنی ہے ۔صدارت خطاب میں ش ک نظام نے کہا کہ شاعری کو فارمولہ بندنظریے سے نہیں دیکھنا چاہیے ۔شعر اور شاعری کی مختلف جہتیں ہوا کرتی ہیں۔

ہر چند کی یہ جہتیں ان کے یہاں کم ہیں بلکہ کم و بیش ایک ہی رنگ کی شاعری ملتی ہے ۔تاہم جو ہے اور جیسا بھی ہے وہ قابل قدر ہے اور مجروح کا شمار غزل کے اہم شاعروں میں ہوتا ہے۔

راجستھان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر کوٹھاری نے اردو کو ایک زندہ زبان اور اردو شاعری کی دلکشی کو سراہا۔اور کہا کہ میں مجروح کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

پروفیسر للت کے پنوار نے مجروح کے فلمی نغموں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ فلمی نغموں کو اس طرح سناجاتا ہے جیسے آپ صبح اخبار پڑھتے ہیں۔جناب شمیم طارق نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہماری اردو شاعری کا ایہ ایک اہم زمانہ تھا جہاں ہمارے فن کاروں نے ادب و سماج سے اپنی گہری وابستگی کا ثبوت فراہم کیا ۔

دوروزہ سمینار میں مقالہ خوانی کے تین سیشن ہوئے ،جس کی صدارت پروفیسر علی احمد فاطمی،جناب ش ک نظام اور جناب شمیم طارق نے انجام دی ۔اس موقع پر جناب شین کاف نظام ،جناب شمیم طارق ،پروفیسر احمد محفوظ،ڈاکٹر خالد اشرف،ڈاکٹر عمیر منظر ،ڈاکٹر انور ظہیر ،ڈاکٹر محمد حسین،ڈاکٹر نغمہ جائسی، ڈاکٹر ناصرہ بصری ،ڈاکٹر محمد عرفان ، وغیرہ نے مقالے پڑھے ‘۸،ستمبر کو سمینار کے اختتام پر مجروح کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ’’ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں ‘‘کے عنوان سے جشام غزل کا اہتمام کیا گیا ۔

اس موقع پراندرانائک (ممبئی ) ، ڈاکٹر تیجندر ادا(امرتسر)، انکم ٹیکس کمشنر رولی اگروال (جے پور)نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔شام غزل کی صدارت جناب شین کاف نظام نے فرمائی جبکہ اس کا افتتاح پروفیسر اخترالواسع نے کیا اورآرٹ اینڈر کلچر کے پرنسپل سکریٹری جناب کلدیپ راگھا بطور مہمان خصوصی شریک تھے ۔