روہنگیائی مسلمانوں کے کئی دیہاتوں کو بلڈوزر کے ذریعہ مسمار کرنے کے بعد حملے
بنکاک ۔24 فبروری ۔(سیاست ڈاٹ کام) ماینمار کی گڑبڑ زدہ ریاست راکھین میں آج ایک کے بعد دیگر کئی بم دھماکے ہوئے یہ دھماکے سرکاری دفاتر کو نشانہ بناتے ہوئے کئے گئے ۔ ان دھماکوں میں ایک پولیس آفیسر کے بشمول کئی افراد زخمی ہوئے ۔ ریاست کے پولیس آفیسر اونگ مائت موے نے کہاکہ تمام 3 بم پھٹ پڑے اور دیگر 3 بم پھٹ نہیں سکے ۔ ان بموں کو سیٹوے سے ضبط کیا گیاتھا ۔ ریاست کے دارالحکومت سیٹوے میں بموں کو ضبط کرکے پولیس نے انھیں ایک عمارت میں محفوظ رکھا تھا ۔ ایک بم اعلیٰ سکیورٹی والے سرکاری عہدیدار کی رہائش گاہ کے سامنے پھٹ پڑا ۔ آج صبح تقریباً 4 بجے 3 بم دھماکے ہوئے جہاں ایک پولیس آفیسر معمولی طوررپر زخمی ہواور اور بم دھماکوں کے مقام پر پولیس ہنوز تحقیقات کررہی ہے ۔ انھوں نے کہاکہ گزشتہ ماہ پولیس نے قدیم تاریخی شہر ماردک یوس احتجاجیوں پر فائرنگ کی تھی جس میں کم از کم 7 راکین بدھسٹ ہلاک ہوئے تھے ۔ فائرنگ میں دیگر ایک درجن بدھسٹ زخمی ہوئے تھے ۔ اس واقعہ کے بعد ٹاؤن شپ نظم و نسق کا عہدیدار ان کی کار میں مردہ پایا گیا تھا ۔ سیٹوے دارالحکومت میں 2012 ء سے فرقہ وارانہ تشدد جاری ہے جس میں زائد از 1,20,000 روہنگیائی مسلمان بے گھر ہوئے جو اب شہر سے باہر کیمپوں میں مقیم ہیں۔ اس شہر میں صرف راکھین بدھسٹ ہی بسے ہوئے ہیں۔ تقریباً 7,00,000 روہنگیائی شمالی راکھین ٹاؤن اور مواضعات سے فرار ہوچکے ہیں ۔ کل ہی روہنگیائی مسلمانوں کے کئی مواضعات کو بلڈوزر کے ذریعہ مسمار کردیا گیا تھا ۔ تازہ ترین سٹلائیٹ تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ میانمار حکومت نے راکھین ریاست میں روہنگیائی مسلمانوں کے کئی دیہات پوری طرح بلڈوزرس کے ذریعہ مسمار کردیئے ہیں۔
ان سیٹلائیٹ تصاویر کو امریکی ریاست کولوراڈو میں قائم ادارے ڈیجیٹل گلوب نے فراہم کئے ہیں۔ میانمار حکومت نے اس کارروائی سے اہم شہادتوں کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔ میانمار سے روہنگیائی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازش پر عمل ہورہا ہے ۔ گزشتہ سال اگسٹ میں میانمار کی فوج کی کارروائی کے دوران لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان بچاکر پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لی تھی ۔ ان حملوں کی ذمہ داری فی الحال کسی نے نہیں لی ہے ۔ روہنگیا دہشت گردوں کے ٹوئٹر اکاونٹ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی پر بھی اب تک کوئی نئی پوسٹ نظر نہیں آئی ہے ۔ راکھائن صوبہ دہشت گرد گروپ اراکان آرمی کا بھی گڑھ بتایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکہ نے روہنگیا پناہ گزین معاملہ میں کارروائی کا مطالبہ کیا ہے ، لیکن نوبل انعام یافتہ آنگ سان سو کی کی حکومت نے اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں اور دیگر آزاد انسپکٹروں کو تشدد زدہ علاقوں کا دورہ کرنے سے روک دیا ہے ۔خیال رہے کہ راکھائن کے مراوک شہر میں جنوری وسط میں ہوئی پولیس فائرنگ میں سات مظاہرین کی موت ہونے اور 12دیگر کے زخمی ہونے کے بعد کشیدگی مزید بڑھ گئی تھی۔ مقامی لوگ وہاں ایک قدیم بودھ اراکان سلطنت کا جشن منانے کے لئے جمع ہوئے تھے کہ اچانک تشدد شروع ہوگیا۔تین دن پہلے ہی شمال مشرقی شہر لاشیو میں ہوئے زبردست بم دھماکہ میں بنک کے دو ملازمین مارے گئے تھے ۔ لاشیو میں کئی نسلی باغی گروپ فوج سے لڑائی کررہے ہیں۔گزشتہ برس روہنگیا مسلم باغیوں کے حملے کے بعد فوج کی وسیع پیمانہ پر چلائی گئی مہم کے بعد سے اب تک چھ لاکھ 88ہزار روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔