اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس پینل نے کہاہے کہ انہیں ایسی خبریں مل ہی ہیں جس میں ایک ملین مذہبی ایغور کو چین میں ’’ ایسے مراکز میں رکھا گیا ہے جہاں پر خوف او ردہشت کا ماحول ہے‘‘
چین۔ پیر کے روز حکومت کی نگرانی میں چل رہے چین کے ذرائع ابلاغ نے کہاکہ زینجاینگ میں سکیورٹی فورسس کی موجودگی کا مقصد علاقے جو ایک اور سیریا او رلیبیا بننے سے روکنا ہے‘ چین کے ایغور مسلم کمیونٹی کے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹس پر چین کے ذرائع ابلاغ کا یہ پہلا ردعمل ہے۔
پچھلے جمعہ کے روز اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس نے کہاتھا کہ چین زنچیانگ ایغور کے خود مختار علاقے کو ’’ حقوق سے عاری‘‘ زون میں تبدیل کردیا ہے اور ایغور کے لئے ’’ ایسی مراکز بنائے گئے ہیں جہاں پر خوف او ردہشت کا ماحول ہے‘‘اور ساتھ ہی ایغور مسلمانوں کی بے چینی کا بھی رپورٹ میں اظہار کیاگیاتھا۔
پینل کا کہنا ہے کہ سینکڑوں کی تعدا د میں ایغور مسلمانوں کو مذہبی شدت پسندی سے مقابلے کے لئے نام پر دوبارہ تعلیم دینے کے مقصد سے ان کیمپس میں ڈھونسنے کا کام کیاجارہا ہے۔
بیجنگ کا کہنا ہے کہ مضافاتی علاقوں میں مذہبی شدت پسندی اور بیرونی تربیت یافتہ دہشت گردوں کا خطرہ لاحق ہے‘ جو مقامی ایغور وں کو حملے کرنے کے لئے اکسا رہے ہیں۔مذہبی تشدد ‘پولیس اسٹیشن اور سرکاری دفاتر پر حالیہ حملوں میں سینکڑوں ایغور مارے گئے ہیں۔
جس کے ردعمل میں بیجنگ نے صوبے کا محاصرہ کیاہے۔چین کی بڑی 22ملین لوگ سخت سکیورٹی محاصرہ میں ہے ‘ جس کے متعلق دائیں بازوگروپس کا کہنا ہے کہ ایغور کمیونٹی کے خلاف کاروائی کے مقصد سے اٹھایاجارہا اقدام ہے۔
چین کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار میںآنے کے بعد سے ایغور کے مسلمانوں پر شدت پسندی کو روکنے کے لئے نام پر مظالم کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا ہے۔