لکھنو سیشنس کورٹ جج سے سپریم کورٹ کی جواب طلبی

بابری مسجد انہدام کیس :
لکھنو سیشنس کورٹ جج سے سپریم کورٹ کی جواب طلبی
19 اپریل 2019 ء تک سماعت کی تکمیل کے ارادہ پر سربمہر رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت

نئی دہلی ۔ 10 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے لکھنو ی عدالت کے ایک سیشنس جج سے اس مسئلہ پر رپورٹ طلب کی کہ آیا کس طرح انہوں نے بابری مسجد انہدامی کے اس مقدمہ کی سماعت کو مقررہ مہلت کے مطابق 19 اپریل 2019 ء تک مکمل کرلینے کا ارادہ کیا جس (مقدمہ) میں بی جے پی کے سینئر قائدین ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی بھی ماخوذ ہیں۔ جسٹس آر ایف نریمن اور جسٹس اندوماہوترہ پر مشتمل ایک بنچ نے تحت کی عدالت کے ایک جج ایس کے یادو کی اس درخواست پر حکومت اترپردیش سے بھی جواب طلب کیا ہے جس (جج) کی ترقی کو الہ آباد ہائی کورٹ نے اس بنیاد پر روک دیا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے ’’انہیں سماعت مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس جج کو سربمہر لفافہ میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے 19 اپریل 2017 ء کو کہا تھا کہ بی جے پی کے سرکردہ قائدین ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی کے خلاف 1992 ء میں بابری مسجد کی انہدامی کے سیاسی طور پر حساس مقدمہ میں مجرمانہ سازش کے سنگین جرم پر استغاثہ کی کارروائی کی جائے گی اور اندرون دو سال یعنی 19 اپریل 2019 ء تک تکمیل کیلئے روزانہ بنیاد پر اس مقمدہ کی سماعت کی جائے ۔ عدالت عظمی نے قرون وسطی کی اس یادگار کے انہدام کو ایک ایسا جرم قرار دیا تھا جس نے دستور کا سیکولر ڈھانچہ دہلا دیا ہے ، اس عدالت نے ان وی وی آئی پی (انتہائی اہم ترین) ملزمین کیخلاف مجرمانہ سازش کا الزام بحال کرنے سی بی آئی کو اجازت دی تھی ۔ عدالت عظمیٰ نے اس وقت کہا تھا کہ ’’کوئی تازہ مقدمہ کی سماعت نہیں ہوگی۔ موجودہ مقدمہ کی تکمیل تک اس کی سماعت کرنے والے جج کا تبادلہ نہیں کیا جائے گا ۔ اس مقدمہ کو کسی بھی بنیاد پر ملتوی نہ کیا جائے ۔ تاوقتیکہ سیشن کی عدالت اس مخصوص تاریخ پر سماعت جاری رکھنے کو ناممکن محسوس نہ کرے ‘‘۔ ایودھیا میں متنازعہ ڈھانچہ کے 6 ڈسمبر 1992 ء کو انہدام سے متعلق مقدمہ کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ میں نامعلوم اور گمنام کارسیوکوں سے متعلق معاملات و الزامات ہیں، جس کی سماعت لکھنو کی ایک عدالت میں جاری تھا۔ دوسرا حصہ مذکورہ بالا سینئر بی جے پی قائدین کے خلاف عائد الزامات سے متعلق رکھا ہے جس کی سماعت رائے بریلی کی عدالت میں گواہی تھی ۔ تاہم عدالت عظمیٰ نے یکجا کرنے رائے بریلی اور لکھنو کی عدالتوں میں زیر سماعت ان دونوں علحدہ مقدمات کو یکجا کرتے ہوئے لکھنو میں سماعت کا حکم دیا تھا ۔ اس مقدمہ میں بشمول اڈوانی ، جوشی اور اوما بھارتی 13 وی وی آئی پی ملزمین کے خلاف عائد مجرمانہ سازش الزامات واپس لے لئے گئے تھے جس پر مقدمہ کی سماعت رائے بریلی کی ایک خصوصی عدالت میں جاری تھی لیکن ایک شخص حاجی محبوب (جو اب فوت ہوچکے ہیں) اور سی بی آئی نے بشمول چند سرکردہ قائدین 21 ملزمین کے خلاف وضع کردہ مجرمانہ سازش کے الزامات سے دستبرداری کے خلاف اپیل کی تھی ۔ ان 21 کے منجملہ 8 ملزمین فوت ہوچکے ہیں۔ متوفی ہونے والے چند اہم لیڈروں میں شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے ، وی ایچ پی لیڈر اشوک سنگھل ، مہنت آویدیہ ناتھ اور آچاریہ گری راج کشور شامل ہیں۔