لکھنؤ یونیور سٹی میں ویلنٹائن ڈے پر پابندی

لکھنؤ: یوم عاشقان کے طور پر منا یا جا نے والا ویلنٹائن ڈے اب تیزی سے ہندوستان میں پھیل رہا ہے۔حالانکہ اس پر ہر سال سیاسی اور مذہبی حلقوں میں بحث ہوتی ہے۔او ر کہیں کہیں تو خون خرابہ تک نوبت آجا تی ہے۔ہر سال کی طرح اس سال بھی۱۴ فروری کو یہ دن منا یاجائے گا۔مگر لکھنؤ یو نیورسٹی نے ایک فرمان جاری کر دیا ہے جس سے طلبہ کے حوصلے اور خوشیوپر پانی پھیر دیا ہے۔یونیورسٹی نے اپنے حکم نامہ میں لکھا کہ گزشتہ کئی سالوں سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ مغربی کلچر سے متاثر ہو کر سماج کے نو جوان لڑکے اور لڑکیاں۱۴ فروری کو ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں ۔

اس مرتبہ ۱۴ فروری کو شیو راتری کی تعطیل رہے گی۔اس لئے طلبہ اطلاع دی جاتی ہے کہ اس دن دن یونیورسٹی میں بالکل نہ آئیں۔علاوہ ازیں اس ہدایت نامہ میں یہ بھی کہا گیا کہ اس یونیور سٹی میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کے والدین سے اپیل کی جا تی ہے کہ اہ اپنے بچوں کو ۱۴ فروری کو یونیورسٹی نہ بھیجیں۔۱۰ فروری کو جاری کئے گئے اس نوٹس پر پروفیسر ونود کمار سنگھ کے دستخط ہیں۔اس نوٹس کو یو نیور سٹی کے نوٹس بورڈ پر چسپاں کیا گیا ہے۔

اس میں یہ بھی وارننگ دی گئی کہ اگر کو ئی بھی اس ہدایتکی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔یونیورسٹی کے اس حکم پر بحث چھڑ گئی ہے ۔سیاسی جماعتیں اس پر رد عمل دے رہے ہیں۔اور اس حکم کو بی جے پی اور آر ایس ایس کی تنگ نظری کی علامت بتا رہی ہے۔اس فیصلہ پر طلبا نے کہا کہ یہ چھوٹی سوچ کا مظہر ہے۔اس مسئلہ پر جاری کئے گئے ٹی وی مباحثہ میں سماج وادی پارٹی کے ترجمان سنیل سنگھ نے کہا کہ جس ملک میں کرشن اور رادھا کی پوجا کی جاتی ہے وہاں اس طرح کا فرمان بی جے پی حکومت کی منفی اور چھوٹی سو چ کا ثبوت ہے۔

انھوں نے کہا کہ بی جے پی ہمیشہ پیار کے خلاف رہی ہے۔کانگریس کے ترجمان ذیشان حیدر نے کہا کہ نفرت پر ہی بی جے پی کی سیاست ٹکی ہوئی ہے۔اسے ہر طرح کے پیار سے نفرت ہے خواہ وہ مخالف جنس کے درمیان ہو یا وہ مذہب کے لوگوں کے درمیان ہو۔انھوں نے مزید کہا کہ یہ تو عوام پر پہریداری کے لئے بنایا گیا ہے۔بی جے پی کے ترجمان راکیش تر پاٹھی نے کہا کہ کل مہا شیوراتری ہے اور اس سے قبل یوم عاشقاں بنایا جائے تو یہ بے حد افسوس کی بات ہے۔انھوں نے یو نیورسٹی کی حمایت کر تے ہوئے کہا کہ حکومت زور زبر دستی کر رہی ہے۔مگر ہمارے لئے مہا شیوراتری زیادہ اہم ہے ۔

طلبا کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پابندی کی کیا ضرورت ہے۔یہ وہی ہندوستان ہے جہاں صدیوں پہلے سیکس اور پیار پر ’’ کام سوترا‘‘ لکھی گئی ۔جہاں اجنتا ایلورا میں پیار کا کھلے عام اظہار کیا جاتا ہو جس کی پوجا کی جاتی ہو۔جسے ہندوستانی کلچر مانا جا تا ہے۔وہاں اس طرح کی سوچ سمجھ سے با لاتر ہے۔