لوک سبھا میںاین ڈی اے کو ٹی آر ایس کی تائید کا امکان

فیڈرل فرنٹ کی پیدائش سے قبل ہی موت؟ٹی آر ایس کی بی جے پی سے قربت پر مجلس سے ُدوری کے اندیشے!

حیدرآباد۔ 28 اپریل (سیاست نیوز) تلنگانہ میں لوک سبھا انتخابات سے قبل حکمراں ٹی آر ایس کے سربراہ اور ریاستی چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ بارہا مرتبہ یہ واضح کرچکے تھے کہ ان کی پارٹی، مرکز میں ایک غیرکانگریس اور غیربی جے پی حکومت کی تشکیل کیلئے فیڈرل فرنٹ قائم کرے گی لیکن اب ایک ایسے وقت جب پہلے مرحلے کے تحت تلنگانہ اور پڑوسی تلگو ریاست آندھرا پردیش میں ووٹ ڈالے جاچکے ہیں، اس کے علاوہ ملک بھر میں چار مرحلوں کے تحت رائے دہی مکمل ہورہی ہے ، صورتحال تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے جس میں اب یہ قوی امید کی جانے لگی ہے کہ چندر شیکھر راؤ کی ٹی آر ایس آئندہ لوک سبھا میں بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے کی تائید کرسکتی ہے اور اگر اس کو قطعی اکثریت کے لئے چند ارکان کی تائید درکار ہوگی تو ٹی آر ایس اس کے لئے بھی تیار معلوم ہوتی ہے، البتہ این ڈی اے کو ٹی آر ایس کی تائید اس میں شامل ہوئے بغیر صرف باہر سے کی جائے گی۔ ٹی آر ایس ذرائع نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ این ڈی اے کو اگر 273 نشستیں حاصل ہوجاتی ہیں تو اس صورت میں بھی فیڈرل فرنٹ تشکیل نہیں دیا جائے گا۔ کے سی آر کے لقب سے معروف تلنگانہ کے چیف منسٹر اگرچہ ہمیشہ یہی دعویٰ کرتے رہے تھے کہ ان کی پارٹی ایک غیربی جے پی اور غیرکانگریس فیڈرل فرنٹ تشکیل دے گی، لیکن ان کی پارٹی ٹی آر ایس کے ایک سینئر لیڈر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ کہا کہ ماضی میں بھی ہم کئی مرتبہ تلنگانہ کے مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے پارلیمنٹ میں بی جے پی کی تائید کرچکے ہیں۔ اس طرح کے سی آر اگرچہ فیڈرل فرنٹ تشکیل دینا تو چاہتے ہیں لیکن بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے کو اگر 250 یا اس سے کچھ قریب نشستیں حاصل ہوں گی تو اس صورت میں یہ فرنٹ کام نہیں کرسکے گا۔ کے سی آر کو تاحال صرف آندھرا پردیش کے اپوزیشن لیڈر اور وائی ایس آر کانگریس کے صدر جگن موہن ریڈی کی تائید ہی حاصل ہوسکی ہے، حالانکہ وہ بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی، سماج وادی پارٹی کے صدر اکھیلیش یادو، ترنمول کانگریس کی صدر ممتا بنرجی، جنتا دل (سکیولر) کے سربراہ و سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا سے ملاقاتیں کرچکے ہیں لیکن کسی نے بھی ان فیڈرل فرنٹ کی تائید نہیں کی۔ ٹی آر ایس ، مرکز میں اگر بی جے پی کی تائید کرتی ہے تو یہ صورتحال مجلس اتحادالمسلمین سے تعلقات کے سوال پر ٹی آر ایس کیلئے باعث الجھن ہوگی کیونکہ مجلس کے صدر اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی اکثر مسائل اور پالیسیوں پر بی جے پی اور وزیراعظم نریندر مودی کے کٹر مخالف رہے ہیں، لیکن ریاست میں ٹی آر ایس اور مجلس کسی باضابطہ مفاہمت کے بغیر بھی ایک دوسرے کے حلیف ہیں ، اسد اویسی نے 2019ء کے لوک سبھا انتخابات اور 2018ء کے اسمبلی انتخابات میں اپنی پارٹی کی مہم کے دوران دیگر حلقوں میں کے سی آر اور ان کی پارٹی کو ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔ اس صورتحال پر ایک سوال کے جواب میں مجلس اتحادالمسلمین کے ایک سینئر ذمہ دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ جواب دیا کہ انہیں یقین ہے کے سی آر کسی بھی صورت میں بی جے پی کی تائید نہیں کریں گے لیکن ایک سینئر سیاسی تجزیہ نگار پالوائی راگھویندر ریڈی نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران ٹی آر ایس نے جو کچھ کیا ہے، اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو این ڈی اے کی تائید سے متعلق ٹی آر ایس کا موقف قابل حیرت نہیں ہوگا، لیکن کے سی آر اگر رسمی طور پر این ڈی اے کا حصہ بنتے ہوئے کابینہ میں شمولیت کا فیصلہ کرتے ہیں تو صرف اس صورت میں ہی حالات بدل سکتے ہیں اور تب ہی اسد اویسی ٹی آر ایس کے ساتھ مجلس کے تعلقات کے بارے میں غور کرسکتے ہیں ورنہ اس کی ضرورت نہیں رہے گی۔