لوک سبھا الیکشن 2019۔ مسلمانوں کو امید ہے کہ ان کے ووٹ بہتر سہولتوں میں تبدیل ہونگے

چاندنی چوک‘ نارتھ ایسٹ دہلی اور ایسٹ دہلی جیسے حلقوں میں توجہہ مرکوز کرتے ہوئے مسلم رائے دہندوں نے کہاکہ ان کے پڑوسی قومی درالحکومت کا سب سے پسماندہ حصہ ہیں‘ جہاں پر بنیادی سہولتوں کی کم ہے۔

نئی دہلی۔ مسلم ووٹرس جنپوں نے درالحکومت کے آخری تین پارلیمانی حلقوں میں کافی اہم رول ادا کیا ہے‘ اتوار کے روز کہاکہ انہیں امید ہے کہ جیتنے والا امیدوار ان کے مسائل پر توجہہ مرکوز کرے گا اور ان کی زندگیوں میں تبدیلی لائے گا اور انہیں ووٹ بینک کی طرح استعمال نہیں کرے گا۔

چاندنی چوک‘ نارتھ ایسٹ دہلی اور ایسٹ دہلی جیسے حلقوں میں توجہہ مرکوز کرتے ہوئے مسلم رائے دہندوں نے کہاکہ ان کے پڑوسی قومی درالحکومت کا سب سے پسماندہ حصہ ہیں‘ جہاں پر بنیادی سہولتوں کی کم ہے۔سلیم پور کے ایک ساکن بلال احمد نے کہاکہ ”جہاں پر مسلمانوں کی توجہہ وہاں نہ تو ہمارے پاس بنیادی سہولتوں میں سڑکیں ہیں‘ نہ ہی بہتر اسکول‘ اسپتال اور کالج علاقہ میں ہیں۔

ہر الیکشن میں سیاسی قائدین مسلمانوں کے ووٹ تو چاہتے ہیں مگر جب کام کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ ہمارے مسائل بھول جاتے ہیں“۔مسلمان جو جعفر آباد او رمصطفےٰ آباد میں رہتے ہیں جو علاقہ غیر تسلیم کالونیوں سے بھرا ہوا ہے کا کہنا ہے کہ یہاں پر ہمارے پڑوسی آبادی کے تقابل میں بہت ہم کم اسکول ہیں۔

مصطفے آباد کے رہنے والی ایک انگن واڑی ورکرشبنم خاتون نے کہاکہ ”یہاں پر آبادی بہت ہے۔ یہاں پر صرف ایک سرکاری سکینڈری اسکول مصطفےٰ آباد میں ہے۔

ہمارے علاقے کے قریب میں بھی کوئی سرکاری اسپتال ندارد ہے۔ مگر کسی کو بھی ہمارے ان مسائل کی فکر نہیں ہے“۔

دہلی کی مجموعی آباد میں ایک اندازے کے مطابق بیس فیصد تناسب مسلمانوں کا ہے۔ سب سے زیادہ مسلمان نارتھ ایسٹ دہلی(23%)ہیں اس کے بعد ایسٹ دہلی میں (16%)فیصد اور چاندنی چوک میں (14%) فیصد مسلمان ہیں۔

ایسٹ دہلی کے جامعہ نگر کے ایک پچیس سالہ محمدعروج نے کہاکہ ایجوکیشن اور روزگار اصلی رائے دہی مسائل ہیں

۔انہوں نے کہاکہ ”ہمیں بہتر اسکول‘ کالج اور علاقے میں نوکریوں کے مواقع چاہئے‘ جو دوسرے شہرو ں سے الگ ہوں“۔

بعض لوگوں نے عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے دوران ووٹوں کی تقسیم کے خدشہ کا بھی اظہار کیا