بنارس سلک انڈسٹری کی دنیا میں ’’تانا ‘ بانا ‘‘ کے لفظ کا استعمال کافی مقبول ہے ‘ جو خوبصورت بنارس کی ساڑی کے کاروبار میں مسلم بنکروں اور ہندو تاجروں کے درمیان صدیوں سے چلی آرہے تعاون کی نمائندی کرتا ہے
وارناسی۔ لفظ ’تانا ‘ او ر’بانا‘‘ محض دو ہفتوں کے درمیان دھاگے کو بننے کے لئے استعمال ہونے والا لفظ نہیں ہے۔ ایک دوسرے سے یہ کام اور روزگار سے جوڑے الفاظ ہیں۔ اس کا کامیابی سلک کے کپڑے کی تیاری کا سبب بنتی ہے۔بنارس سلک انڈسٹری کی دنیا میں ’’تانا ‘ بانا ‘‘ کے لفظ کا استعمال کافی مقبول ہے ‘ جو خوبصورت بنارس کی ساڑی کے کاروبار میں مسلم بنکروں اور ہندو تاجروں کے درمیان صدیوں سے چلی آرہے تعاون کی نمائندی کرتا ہے۔
وارناسی میں جو وزیراعظم نریندر مودی کا حلقہ ہے اور ہندوعقائد کا مرکز مانا جاتا ہے انتخابی شور یہاں پرشروع ہوگیاہے۔ تاہم مسلئے ساری صنعت اور درجنوں کرافٹ سے وابستہ بنکروں کے متعلق نہیں ہے۔ اس کے بشمول سیاحت کے علاوہ یہ وارناسی میں بڑے پیمانے پر ملازمت کی تمانعت ہے۔
اس کے باوجود گنگا کے ساحل پر دیش وارمیدھ گھاٹ کو جانے والا تنگ راستے پوری طرح سیاسی طورپر سج گیاہے۔ ہندو یوا وہانی کے نوجوان نعرے لگارہے ہیں اور جلوس مذہبی رنگ میں ڈھل گیاتھا۔
ریالی میں بھگوان رام اور ان کی بیوی سیتا کے لباس میں جوڑے دیکھے دے رہے تھے جو سجاوٹ سے لیز گھوڑے کی بگی پر سوار نظر اتے ہیں۔
ان کے ساتھ ریالی میں لوگ نعرے لگارہے تھے’’ ایک بار پھر مودی سرکاری‘‘۔ جلوسوں کا اختتام گھاٹوں پر ہوا ‘ جہاں پر ’’ارتھی‘‘ تقریب ہوئے جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوکر سیاسی ریالی کو مذہبی رنگ میں تبدیل کردیا۔
مسلمان بنکروں او رہندو صنعت کاروں کے درمیان کیمروں تعلقات ہر وقت بہتر رہتے ہیں۔ لالا پور علاقے میں سلک کے کیڑے فروخت کرنے والے چھوٹے کاروباری آنند ورما نے کہاکہ’’مگر الیکشن کے دوران مذکورہ دوطبقات الگ الگ راستوں پر چلتے ہیں۔
وہیں ہندو بی جے پی کے لئے ووٹ کرتے ہیں ‘ مسلم جو کوئی بھی بی جے پی کو ہرانے کے قابل ہوتا ہے اس کو ووٹ کرتے ہیں‘‘۔
وارناسی کی ساری اور کرافٹ انڈسٹری جس کا زیادہ تر انحصار نقدی پر ہوتا ہے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہہ سے کافی متاثرہوئی ہے۔
چھوٹی صنعت سے وابستہ سربراہان او رچھوٹی بنکروں کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ سے ان کی آمدنی میں بڑی حد تک گروٹ ائی ہے‘ جس کا خمیازہ تاجروں کو بھگتنا پڑا ہے جو بنکروں سے خریدی کرتے ہیں۔
ایسٹرین اترپردیش ایکسپوٹرس اسوسیشن سے وابستہ مقامی صنعت کار وویک بارن وال نے کہاکہ’’ مذکورہ جی ایس ڈی نے صنعت کو مشکل کردیا ہے۔ بنارس ساری انڈسٹری کا ایک بڑا حصہ ٹیکس میں ایک روپئے بھی ادا نہیں کرتاتھا‘ مالیہ کا ہمیں نقصا ہورہاہے۔
بڑے صنعت کاروں کے لئے جی ایس ٹی کوئی مسئلہ نہیں ہے ‘ مگر مسئلہ چھوٹے بنکروں کے بن گیاہے‘‘۔
انہو ں نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے نافذ پانچ فیصد ایمپورٹ ٹیکس کو مذکورہ انڈسٹری کے لئے ایک تازہ خطرہ قراردیاہے۔ ایک بنکرخورشید خان نے کہاکہ’’ میرے لئے سب سے مشکل یہ ہے میں تعلیم یافتہ نہیں ہوں۔لہذا میں جی ایس ٹی جیسے چیز کو حل کرنے میں ناکام ہوگیا‘‘۔