لوجہا دسے گھر واپسی ‘ تاج محل سے ٹیپوسلطان تک بحث کے ذریعہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش ۔ شرد یادو

نومبر 8کے روز نوٹ بندی کے ایک سال کی تکمیل پر پورے بہار میںیوم سیاہ منانے کا اعلان۔ عظیم اتحاد اور غیربی جے پی سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے یوم سیاہ منایاجائے گا
نئی دہلی۔چہارشنبہ کے روز جنتا دل یونائٹیڈ(جے ڈی یو) کے لیڈر شرد یادو نے اعلان کیا کہ بہار کے تمام اضلاع میں عظیم اتحاد اور غیربی جے پی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملکر 8نومبر کے روز نوٹ بندی کے ایک سال کی تکمیل کے موقع پر یوم سیاہ منایاجائے گا۔

پچھلے سال نومبر8کے روز وزیراعظم نریند رمودی نے اعلان کیاتھا کہ 500او رایک ہزار کے نوٹ بند کردئے جائیں گے اور کہاتھا کہ اس اقدام سے کالے دھن پر لگام کسے گی اور بدعنوانی کا خاتمہ ہوگا۔شردیادو ہندوستان تجارت میں تیس فیصد کے اونچائی کے متعلق رپورٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ ’’ جی ایس ٹی او رنوٹ بندی نے ملک کی معیشت کو بڑا نقصان پہنچایا ہے اور اس کی بازیابی کے لئے دس سال لگیں گے۔

حکومت اس بات کی کوشش کررہی ہے کہ معیشت کے متعلق ورلڈ بینک اور دیگر بیرونی ایجنسیوں کے ذریعہ نمبرات کی سند حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

مگر ہم ہمارے ملک کی حالت کے عین شاہد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ معیشت اور روزگار پوری طرح تباہ ہوگیا ہے‘‘۔انہوں نے مزیدکہاکہ’’کھانے کی اشیاء کی درآمد کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ لوگ بھوک کے مارے ملک میں مر رہے ہیں۔ کسان پریشان حال ہیں کیونکہ انہیں زراعت پر لگائی گئی رقم بھی واپس نہیں مل رہی ہے۔ وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں لوگ روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔نریندر مودی حکومت کے انتخابی وعدوں کو یادمیں ناکامی کا الزام عائد کرتے ہوئے شرد یادو نے کہاکہ حکومت وہ تمام کررہی ہے سوائے اپنے انتخابی وعدوں کے ۔انہوں نے کہاکہ ’’ لوجہاد سے گھر واپسی اور تاج محل سے ٹیپو سلطان ‘ ہردوسرے دن سماج کو بانٹنے کا موضوع تلاش کرلیاجاتا ہے۔ وہ اپنی ناکامیو ں کو اس قسم کے موضوعات میں دبا کر رکھنا چاہتے ہیں‘‘۔

گجرات الیکشن کے متعلق انہوں نے کہاکہ ان کی پارٹی کانگریس کی حمایت کریگی۔یادو نے کہاکہ ’ ’ حالیہ دنوں میں ہماری پارٹی کے کارگذار صدر چھوٹو بھائی واساوی نے راہول گاندھی سے ملاقات کی اور گجرات الیکشن کے متعلق بات کی‘‘۔جے ڈی یو کے انتخابی نشان’ تیر‘ کے متعلق نتیش کمار او رشرد یادو کے درمیان میں تنازع چل رہا ہے۔ اور یہ مسئلہ الیکشن کمیشن کے پاس زیر التواء ہے