لفظ سکیولرازم کا سب سے زیادہ بے جا استعمال

سکیولر ازم و سوشلسٹ جیسے الفاظ امبیڈکر نے دستور میں شامل نہیں کئے تھے ۔ لوک سبھا میں دستور ہند پر مباحث ۔ راج ناتھ سنگھ کا خطاب

بیجا استعمال کی وجہ سے ملک میں ہم آہنگی برقرار رکھنا مشکل
امتیاز کے باوجود امبیڈکر نے ملک چھوڑنے پر غور نہیں کیا
اپوزیشن نے عدم رواداری کا مسئلہ اٹھایا

نئی دہلی 26 نومبر ( سیاست ڈاٹ کام ) لوک سبھا کے سرمائی اجلاس کا آج دستور ہند پر مباحث کے ساتھ آغاز ہوا ۔ ان مباحث کے دوران حکومت نے کہا کہ لفاظ سکیولر ازم کا دستور میں جو استعمال کیا گیا ہے اس کا بیجا استعمال ہوا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے کانگریس صدر سونیا گاندھی کی قیادت میں عدم رواداری کا مسئلہ اٹھایا ۔ دستور ہند کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے 125 ویں یوم پیدائش کے موقع پر دستور ہند پر مباحث کا آغاز کرتے ہوئے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ دستور کے معمار نے اس دستاویز میں لفظ ’ سکیولر ازم ‘ کو شامل کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا ۔ انہوں نے کہا کہ اس لفظ کو 1976 میں ایک ترمیم کے ذریعہ شامل کیا گیا ہے ۔ راج ناتھ سنگھ نے کانگریس کی جانب سے احتجاج کے دوران کہا کہ الفاظ ’’ سوشلسٹ ‘‘ اور ’’ سکیولر ‘‘ کو دستور ہند میں دستور کی 42 ویں ترمیم کے ذریعہ شامل کیا گیا ہے ۔ اس پر حکومت ک کوئی اعتراض بھی نہیں ہے ۔ جو ہو چکا ہوچکا ہے۔

بی آر امبیڈکر کو یہ ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی کہ ان دو الفاظ کو دستور کے دیباچہ یا تمہید میں شامل کیا جائے ۔ یہ سب کچھ ہندوستانی نظام کا حصہ ہے ۔ راج ناتھ سنگھ نے ہندی لفظ ’ دھرم نرپیکشتا ‘ کے استعمال کی بھی مخالفت کی ار کہا کہ سکیولر ازم کا ترجمہ ’ پنت نرپیکشتا ‘ ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ یہی اس کا سرکاری ہندی ترجمہ ہے اور یہی لفظ استعمال کیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں سکیولرازم ایسا لفظ ہے جس کا سب سے زیادہ بیجا استعمال کیا گیا ہے ۔ اس بیجا استعمال کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ اس لفظ کے مسلسل بیجا و غلط استعمال کے نتیجہ میں سماج میں کچھ کشیدگی کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ انہوں نے ادعا کیا کہ لفظ ’ سکیولرازم ‘ کے غلط استعمال کی وجہ سے ملک میں سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ سونیا گاندھی نے اس کے جواب میں عدم رواداری کے مسئلہ پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ وزیر داخلہ نے تحفظات کے مسئلہ پر بھی اظہار خیال کیا ۔ انہوں نے کہا کہ تحفظات کے مسئلہ کو بھی سیاسی رنگ دیدیا گیا ہے ۔

وزیر داخلہ نے واضح کیا کہ کوٹہ ایک دستوری گنجائش ہے اور اس پر کسی مباحث کی مزید کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ انہوں نے یہ وضاحت اسوقت کی جبکہ بہار اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے تحفظات کے نظام پر نظرثانی کی ضرورت پر زور دیا تھا ۔ بی جے پی کے اعلی قائدین نے اس کے بعد بارہا واضح کیا تھا کہ تحفظات کے نظام کو ختم نہیں کیا جائیگا ۔ یہ واضح کرتے ہوئے کہ مرکزی حکومت بلا لحاظ ذات ‘ رنگ و مذہب ہر ہندوستانی کے تحفظ اور سلامتی کی پابند ہے انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والا ہر شخص ہندوستانی ہے اور سب بھائی ہیں۔ انہوں نے بالواسطہ طور پر بالی ووڈ اداکار عامر خان پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ڈاکٹر امبیڈکر پر کئی مرتبہ تنقیدیں کی گئیں ‘ ان کی توہین کی گئی ‘ ان کے ساتھ امتیاز برتا گیا اس کے باوجود انہوں نے کبھی ہندوستان چھوڑنے کے تعلق سے نہیں سوچا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان وہ واحد ملک ہے جہاں مسلمانوں کے تمام 72 فرقے رہتے ہیں اور مجوسی اور یہودی طبقات بھی دنیا بھر میں مسائل کا شکار ہونے کے باوجود یہاں خود کو محفوظ متصور کرتے ہیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر کو خراج پیش کرنے کے علاوہ قوم کی تعمیر میں انہوں نے سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور سابق وزیر داخلہ سردار پٹیل کے رول کا بھی تذکرہ کیا ۔ انہوں نے ادعا کیا کہ نریندر مودی امبیڈکر اور دستور کے فلسفہ سے متاثر ہیں اسی لئے انہوں نے سوچھ بھارت اور بیٹی پڑھاؤ ۔ بیٹی بچاؤ جیسے پروگرام شروع کئے ہیں۔ و زیر داخلہ نے جب یہ کہا کہ مرکزی حکومت خواتین کو نیم فوجی دستوں اور ریاستی پولیس فورسیس میں 33 فیصد تحفظات فراہم کرنے اقدامات کر رہی ہے تو کانگریس کے ایک رکن نے سوال کیا کہ مودی حکومت خواتین کو لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں 33 فیصد تحفظات فراہم کرنے دستوری ترمیمی بل پیش کرنے میں کیوں تاخیر کر رہی ہے ۔