قوم اور معاشرہ کے مفادات کو ترجیح دینے والے قائدین کو منتخب کرنیکی ضرورت

دفتر سیاست میں دانشوروں کا اجلاس، جناب وجاہت حبیب اللہ کا خطاب

حیدرآباد۔8ستمبر(سیاست نیوز) ادارہ سیاست کے زیراہتمام گولڈ جوبلی ہال میںمنعقدہ دانشوروں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے پہلے چیف انفارمیشن کمشنر اور سابق کمشنر اقلیتی کمیشن جناب وجاہت حبیب اللہ نے کہاکہ ایسے سیاسی قائدین کا انتخاب ضروری ہے جو اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قوم اور معاشرے کے مفادات کو ترجیح دیں۔ انہوں نے کہاکہ اکثر یہ دیکھنے میںآیا ہے کہ چاہے کسی بھی تعلق سے لیڈر کا تعلق رہے وہ اپنی قوم او رمعاشرہ کی ترقی کے لئے کبھی سنجیدگی سے کام نہیں کرتا او راسکے برعکس وہ اپنے ذاتی مفادات کو ضرور ترجیح دیتا ہے۔ اجلاس میں مدیر روزنامہ سیاست جناب زاہد علی خان ‘ ریٹائر ڈ آئی پی ایس جناب ایس ایس ہدی ‘ جناب افتخار شریف ‘ جناب میجر جی ایم قادری بھی شہ نشین پر موجود تھے ۔سلسلہ خطاب کو جاری رکھتے ہوئے جناب وجاہت حبیب اللہ نے کہاکہ کیرالا‘ مغربی بنگال ‘ تمل ناڈو میںمسلمانوں نے اپنے آپسی اتحاد کا مظاہرہ کیااور وہاں کی حکومتیں بھی ان کی پشت پناہی کے لئے مجبور ہوگئیں ہیں کیونکہ مذکورہ حکومتوں کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہیکہ اگر مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کونظر انداز کیاگیا تو وہ سیاسی انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ تاہم تلنگانہ او رآندھرا کی صورت حال مختلف نظر آرہی ہیں ۔ جناب وجاہت حبیب اللہ نے کہاکہ یہاں پرمسلمانوں کا مستقبل قائدین پر منحصر دیکھائی دے رہا ہے۔لہٰذا ایسی قیادتوں کا انتخاب کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے ذاتی مفادات کوچھوڑ کر معاشرے کے مفادات کو ترجیح دینے والے ہوں۔ انہوں نے اپنے مشاہدہ کے حوالے سے کہا کہ جہاں پر مسلم معاشرہ کسی ایک قیادت پر منحصر ہوتا ہے تووہاں کے لوگ سیاسی ‘ سماجی او رمعاشی وتعلیمی پسماندگی کاشکار ہوتے ہیں۔انہو ں نے کہاکہ نوجوانوں میں سوال پوچھنے کا حوصلہ پیدا ہونا چاہئے۔ ترقی کے نام پر جو فنڈس مہیا کرائے جاتے ہیں اس کی اجرائی اور خرچ سے متعلق سوال پوچھنا ہر شہری کا جمہوری حق ہے۔ سوال پوچھنے میں ناکامی کی وجہہ سے بدعنوانی کو فروغ ملتا ہے۔ ہمارے نوجوانوں میں سوال پوچھنے کا حوصلہ پیدا ہونا چاہئے۔ موجودہ دور میں معلوما ت حاصل کرنے کے حق کو غیر کارگرد بنایا جارہا ہے اور اس میں کامیابی کی اصل وجہہ عام لوگوں اور آرٹی آئی کے درمیان اشتراک کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہاکہ آرٹی آئی ایک ایسا قانون ہے جس کے ذریعہ بدعنوانی کو منظر عام پر لایاجاسکتا ہے اور اس قانون کا سہارا لے کر ہم سیاسی جماعتوں کوجوابدہی کے لئے مجبور کرسکتے ہیں۔ انہو ںنے کہاکہ سیاسی جماعتیں خود آرٹی آئی کے تحت آتی ہیں مگر سیاسی جماعتوں کو آرٹی آئی کے دائرے کار سے دور رکھنے کی کوششیں ہر دور میںکی جاتی رہیں ہیں۔ جناب وجاہت حبیب اللہ نے کہاکہ آرٹی آئی کے ذریعہ آپ سیاسی جماعتوں کے منشور پر بھی سوال کھڑا کرسکتے ہیں۔ اسی طرح معاشرے کے لئے بہتر چیزوں کا انتخاب معاشرے میںرہنے والے لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ معاشرتی ترقی کی ضمانت دینے والوں ‘ آئینی اور قانونی حقوق کی حفاظت کی پابند عہد لوگوں کو ترجیح دیتے ہوئے معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامز ن کیاجاسکتا ہے۔انہو ںنے کہاکہ ہمیں اپنے گھر میںمحفوظ رکھنے والی حکومتوں کا انتخاب کرنا چاہئے۔ اجلاس میںموجود مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کے سوالا ت کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ مسلمانوں کے فکر صحیح ضروری ہے۔ہماری کوشش یہی ہونی چاہئے کہ ایسے لوگوں کے انتخاب کو یقینی بنائیں جو خالص قوم وملت کی فلاح وبہبود کے لئے فکر مند ہوں۔ ایسے لوگوں کو اپنا نمائندہ ہر گز نہ بنائیںجس نے قوم او رملت کی ترقی کے لئے کبھی کوئی کام نہیں کیا ہو۔ اور ماضی کے منتخب قائدین سے گذشتہ پانچ سالوں کی کارکردگی سے متعلق ضرور سوال کریں۔ انہو ںنے آخر میںاس بات کی طرف بھی اشار ہ کیاکہ مسلمانوں کے ماضی کو تابناک بنانے کے لئے پسماندہ طبقات کے ساتھ مسلمانوں کا اتحاد ایک نیا سیاسی انقلاب برپا کرسکتا ہے۔انہوں نے اس موقع حالیہ دنوں میںاترپردیش او ربہار میںہوئی ضمنی انتخابات کی مثالیںپیش کیں ۔انہوں نے کہاکہ یوپی میں دلت مسلمانوں اور اوبی سی طبقات کے اتحاد نے وہاں کی حکمران جماعت بی جے پی کوشکست فاش کردیا۔ بہار میںبھی دلت او رمسلم او راوبی سی سماج کے اتحاد نے این ڈی اے کوشکست دی ۔ انہو ںنے ہر جگہ اس قسم کے اتحاد پر توجہہ مرکوز کرنے کا بھی مسلمانوں کو مشورہ دیا۔سوالات پوچھنے والوں میں مولانا سید طارق قادری‘ جناب مصطفی محمود جنرل سکریٹری ایم بی ٹی‘ حیات حسین حبیب شامل ہیں۔