جب میں سیالکوٹ میں تھا جو اب پاکستان کا حصہ ہے میں عموما پابندی کے ساتھ چھاونی کے سینما ہال میں فلمیں دیکھتا تھا۔جس بات پر مجھے غصہ آتا وہ یہ تھی کہ مجھے برطانوں قومی ترانے پر کھڑا ہونا پڑتھا تھا و ’’ گاڈ سیو دی کنگ‘‘ کے الفاظ سے شروع ہوتاتھا۔ سنیما ہالوں کے دروازے بند نہیں کئے جاتے تھے اور لوگوں کو اس کی آزادی تھی کہ وہ جیسا چاہے کریں ۔ کسی طرح کا جبر تو نہیں تھا لیکن برطانوی قومی ترانہ بجائے جانے کے دوران اس کی توقع کی جاتی تھی کہ لوگ اٹھ کھڑے ہوجائیں۔ برطانوی حکمراں عوام کے حقوق کے تئیں حساس تھے۔
انہوں نے ترانے پر کھڑے ہونے کو لازمی نہیں بنایا اور کھڑے نہ ہونے والے افراد پر کوئی قانونی کاروائی بھی نہیں ضروری نہیں قراردی۔اہم بات یہ ہے کہ ہندوستانی فلموں کے بعد برطانوی قومی ترانہ بجائے جانے سے بتدریج گریز کیاجانے لگا کہ کہیں ناظرین شہنشاہ اور پھر ملکہ کی توہین نہ کرنے لگیں۔ بصورت دیگر بھی وہ ایسی کسی صورت حال سے بچنا ہی چاہتے تھے۔ماضی میں سنیما ہالوں میں قومی ترانہ بجائے جانے پر قانونی مداخلت ہوتی رہی ہے۔ سال2004میں مہارشٹرا اسمبلی نے ایک حکم نامہ جاری کرکے کسی فلم کے آغاز سے پہلے قومی ترانہ بجایا جانا لازمی ٹھہرایا تھا ۔
سال 1960کے دہے میں قومی ترانہ فلم کے اخیر میں بجایاجاتا تھالیکن چونکہ فلم ختم ہوے کے بععد لوگ باہر نکل جاتے تھے یہ روایت ختم کردی گئی۔ موجودہ قوانین کسی کو کھڑ ے ہونے یا قومی ترانہ گانے پر مجبور نہیں کرتے قومی وقار کی آہناتوں کا انسداد قانون 1971یہ کہتا ہے کہ ’’ جوکوئی بھی دانستہ طور پر جن گن من گانے میں رکاوٹ ڈالے گا یا اس کے گانے میں مصروف اجتماع میں خلل ڈالے اسے تین سال کی قید کی سزا دی جاسکتی ہے یا اس پر جرمانہ کیاجاسکتا ہے یا دونوں سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں‘‘۔ترانے کی سرکاری مدت 52سیکنڈ ہے۔
حالانکہ جو کچھ سنیما حال میں بجایاجاتا ہے وہ اس طوالت سے تجاوز کرجاتا ہے ۔سال2015میں وزارت داخلہ کے ایک حکم نامے میں کہاگیا تھا کہ جب بھی ترانہ گایا یا بجایا جائے گاتوسامعین مستعد ہوکر کھڑے ہوجائیں گے۔ تاہم اگر نیوز ریل یا دستاویزی فلم کے دوران فلم کے حصے کے طور پر ترانہ بجایاجاتا ہے تو سامعین مستعدد ی کی حالت میں کھڑے ہوے کی توقع نہیں کی جاتی کیونکہ اس طرح کھڑے ہونے سے فلم کی نمائش میں یقیناًخلل پڑے گا اور ترانے کے وقار میں اضافہ ہونے کے بجائے بہ ترتیبی اور الجھن پیدا ہوگی۔
او ر اب تک قانون پوری وضاحت کے ساتھ یہی کہتا ہے کہ یہ لوگوں کے ذوق سلیم پر چھوڑاجاتا ہے کہ قومی ترانہ بے سوچے سمجھے گایا یا نجایا نہ جائے۔ اس بارے میں مخصوص ضابطے ہیں کہ قومی ترانہ کس کے لئے بجایاجاتا ہے ( مثلاً صدر جمہوریہ کے لئے نہ کہ وزیر اعظم کے لئے) اور لوگ کب ترانے کو اجتماعی طور پر گاسکتے ہیں۔ حالانکہ عدالتِ عظمی کے حکم نامے کے اطلاق اور اس کی خلاف ورزی کی سزاؤں کا پہلو واضح نہیں ہے۔
آزادی کے ذاتی طور پر وضع کردہ تصورات کی نظائر یقیناًہیں جو عدالت کے حکم نامے کے مطابق بے اعتدالی پر مبنی ہوں او رقومی مقاصد کے مقابلے میں ان کی حمایت کی گئی ہو۔ موجودہ حالات میں عدالت عظمیٰ کا کوئی فیصلہ نہیں ہے نہ ہی کوئی قانونی شق یا انتظامیہ ضابطہ ہے جو قومی ترانے کے دوران لوگوں کے کھڑے ہونے کو لازمی قراردے۔یہ بات کہ لوگ ایسا کرتے ہیں ‘ ان کی طرف سے ذاتی طور پر احترام کے اظہار کی علامت ہے۔ لیکن عدالت عظمی نے یہ ضابطہ بنایا تھا کہ سنیما ہالوں مںیفلم دکھائی جانے سے پہلے قومی ترانہ لازما بجائے جائے اور یہ کہ تمام افراد احتراما کھڑے ہوں۔
لوگوں کوآزادنہ اس کا احساس ہونا چاہئے کہ وہ ایک قوم کی حیثیت سے رہتے ہیں اور قومی ترانے او رقومی پرچم کا احترام کریں۔سپریم کورٹ کی اکتوبر 2017جی سماعت کے دوران جسٹس چندراچوڑ نے یہ تبصرہ کرتے ہوئے کہ ’’ لوگ قومی پرستی کا بلہ کیوں لگارہیں‘‘۔2016کے حکم نامے میں ردوبدل کی طرف اشارہ کیاتھا۔ لوگ تفریح کے لئے سنیما جاتے ہیں۔ معاشرے کو اس تفریح کی ضرورت رہتی ہے۔ لیکن حکومت نے عدالت کو بتایا کہ وہ نومبر2016کی صورت حال کی بحالی پر غور کرسکتی ہے جب سنیما ہالوں کے لئے قومی ترانہ لازمی نہیں تھا۔
یہ کہاگیا تھا کہ یہ لائق احترام عدالت اس وقت کی صورت حال کی بحالی جواسی کورٹ کے منظور کردہ حکم نامہ سے پہلے 30نومبر 2016کو تھیجس کا تعلق مذکورہ حکم نامے میں ہدایت دسے ہے کہ فیچر فلم شروع ہونے سے پہلے تمام سنیما گھر وں میں قومی ترانہ بجانے کو لازمی قراردیا جاتا ہے۔چند سال قبل کی بات ہے کہ عدالت عظمی کے دورکنی بنچ نے کیرالا کے ایک اسکول کو ان تین بچوں کو واپس لینے کا حکم صادر کیاجنہیں قومی ترانہ نہ گانے پر اسکول سے نکال دیاگیاتھا۔ اگرچہ وہ ترانے کے دوران کھڑے ہوئے تھے۔
بچوں نے اپنے اس اعتماد کی بنیاد پر قومی ترانہ گانے سے پرہیز کیا کہ ان کا مذہبی عقیدہ ترانہ گانے کی اجازت نہیں دیتا۔سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ ایسی کوئی قانون شق نہیں ہے جو کسی کو قومی ترانہ گانے پر مجبور کرے او راگر کوئی شخص قومی ترانہ گائے جانے کے دوران احترام سے کھڑا رہتا ہے اور گانے میں شامل نہیں رہتا تو وہ قومی ترانے کی توہین نہیں کرتا۔
تاہم عدالت نے اس مسئلہ پر کوئی روشنی نہیں ڈالی کہ قومی ترانے کے دوران کھڑے نہ ہونے والے شخص کا کیاہوگا۔ فیصلہ اس پیغام پر ختم ہوگیا کہ ’’ ہماری روایت ضبط وتحمل‘‘سکھاتی ہے ‘ ہمارا فلسفہ رواداری سکھاتا ہے اور ہمارا ائین رواداروں پر عمل کرتا ہے ۔ ہم اس کی ناقداری نہ کریں۔ میرا ذاتی طور پر یہ خیال ہے کہ ایسا کوئی واضح حکم وکہ جب ترانہ گایایا بجایاجائے تو سب کو کھڑا ہونا ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ اس ضابطے کو کوئی حصہ کسی بھی وقت قومی ترانہ بجائے جانے پر کھڑے ہونے کو لازمی قراردیتا ہے جبکہ دوسرا حصہ استثنائی حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔