قول او رفعل کا تضاد حکومت کولے ڈوبے گا۔خالد شیخ

گذشتہ سال6ڈسمبر کو منی شنکر ائیر کے گھر ہوئی ڈنر تقریب کا انتخابی فائدہ اٹھانے کے لئے مودی نے اس طرح سابق وزیراعظم من موہن سنگھ اور نائب صدر جمہوریہ حامد انصار پر بغیر کسی سند کے گھٹیا اور جھوٹا الزام لگایا اس کی قلعی جلد ہی کھل گئی۔ من موہن سنگھ سے مودی کو پھٹکارتے ہوئے معافی کا مطالبہ کیا۔کانگریس نے اپوزیشن پارٹیوں کی مدد سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس مطالبے کو دہرایا اور راجیہ سبھا کی کاروائی میں رخنہ ڈالا۔

ارون جیٹلی کی وضاحت کے بعد تعطل ختم ہوا لیکن جیٹلی کی وضاحت پر راہل گاندھی کا طنزیہ ٹوئٹ وائرل ہوگیاجس میں درج تھا کہ ’’ جیٹلی جی یادلانے کا شکریہ کہ ہمارے وزیر اعظم جو کہتے ہیں ان کا مطلبب وہ کبھی نہیں ہوتا او ران کا جو مطلب ہوتا ہے وہ کبھی کہتے نہیں‘‘ مودی حکومت کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ مثلا(1) نوٹ بندی کے ذریعہ کالا دھن‘ بدعنوانی او ردہشت گردی پر لگام کسنے کا دعوی کیاگیا۔

یہ لعنتیں تو ختم نہیں ہوئی لیکن عام آدمی کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا اور نوٹ جمع کرنے اور نکالنے کی تگ ودو میں سو افراد جان گنوا بیٹھے۔ (2)شہریوں کو ریاست و کرمز کے درجن بھر ٹیلسوں سے نجات دلانے کے لئے ’’ ون نیشن ون ٹیکس‘‘ یعنی جی ایس ٹی کا نفاذ کیاگیا جس سے موجودہ قیمتوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہوگیا جس کا اثر عام آدمی کی جیب اور چھوٹے اور متواسط طبقے کے بیوپاریوں کی کمائی پر پڑا۔(3)آدھار کارڈ کا مقصد مستحقین کو فلاحی اسکیموں کا فائدہ پہنچانا تھا۔ کتنوں کو فائدہ پہنچا اس کا علم نہیں لیکن کارڈ نہ ہونے کی وجہہ سے بھکمری کی خبریں ضرور پڑھنے کو ملیں۔یو پی اے کے دور میں اس کے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں دستور کے ارٹیکل 21کے تحت انسانی زندگی ‘ شخصی آزادی اور پرائیویسی ( حق رازداری) کو بنیادی حق بتایاتھا۔ این ڈی اے کا نظریہ اس کے بالکل الٹ ہے۔

اس کے سابق اٹارنی جنرل مکل رہوہتگی نے دعوی کیا کہ شہریوں کا ان کے جسم پربھی کوئی ادھیکار نہیں۔ یوپی اے کے دور میں مودی اور بی جے پی نے آدھار کی سخت مخالفت کی تھی آج وہ اس پر ایسے فد ہیں کہ پین کارڈ‘ بینک اکاونٹ او رموبائل سے لے کر انسانی زندگی سے جڑی ہر چیز کو اس سے جوڑنا چاہتے ہیں تاکہ پرائیوسی جیسی کوئی شے باقی نہ رہے۔ یہ سلسلہ جاری رہتا اگر حکومت دھاندلیوں کے خلاف معترضین سپریم کورٹ سے رجو ع نہ کرتے ۔اگست24سال2017کو عدات نے اپنے تاریخی فیصلے پر پرائیویسی کی بنیادی حق قراردے کر حکومت حکومت کی پیش قدمی پر بریک لگادیا جس سے حکومت کو آدھار سے لنک کرنے والے دستاویزات کی تاریخ میں توسیع کرنا پڑی۔

آدھار کارڈ کا معاملہ ایک سہ نفری بنچ کے سامنے پہلے سے زیرسماعت ہے۔ عدالت کی کوشش پرائیوسی اور آدھار ڈیٹا کے درمیان حد فاصل قائم کرنے کی ہوگی۔ کیونکہ حکومت کے تمام تر دعوؤں کے باوجود سائیر کرائم کے اس دور میں ڈیٹا کا تحفظ سب سے بڑا مسئلہ ہوگا۔ بنگلور کے سنٹر فور انٹرنٹ اینڈسوسائٹی ریسرچ گروپ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیاہے کہااب تک 100ملین سے زیادہ لوگوں کا بینک اکاونٹ نمبر افشاہوچکا ہے۔ جس کا مجرم کوئی اور نہیں چار سرکاری ویب سائیٹس ہیں۔(4)نوٹ بندی او رجی ایس ٹی کو حکومت نے معاشی اصلاحات کے ضروری قراردیاتھا۔

تو آدھار ڈیٹا کو ملک کی سلامتی کے لئے لازمی بتایا۔ اب بینکنگ سیکٹر میں اصلاحات کے نام پر اس کی نظریں آپ کے ڈپازٹ پر ہیں۔ فینانشل ریزولیوشن اینڈ ڈپازٹ انشورنس بل کی52ویں شق میں ’’بیل ان‘‘ کی گنجائش رکھی گئی ہے تاکہ نقصان میں چلنے والے یا دیوالیہ ہونے والے بینکوں کی بھرپائی آپ کے ڈپازٹ کی رقم سے کی جاسکے۔

جب سوشیل میڈیا کے ذریعہ یہ بات عام ہوئی تو لوگوں کی تشویش دور کرنے کے لئے حکومت کو اعلان کرنا پراکہ بینکوں میں جمع رقم کوکوئی خطرہ نہ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسی حکومت جس نے قول وفعل میں تضاد کا نیا ریکارڈ کیاہو کیااس پر بھروسہ کیاجاسکتا ہے؟ خبریں تو یہ بھی گرم ہیں کہ نوٹ بندی کے موقع پر جاری کئے گئے دوہزار روپئے کے نوٹ بند ہونے والے ہیں۔قول اور فعل کے تضاد کی تازہ مثال اگست 22سال 2017کو سپریم کورڈ کی طرف سے دیاجانے والا وہ فیصلہ ہے جس میں طلاق ثلاثہ کو غیر ائینی قراردے کر حکومت کو قانون سازی کا مشورہ دیاگیا۔

سیاسی پارٹی سمیت مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی فیصلے کاخیر مقدم کیا ۔ حکومت نے اپنی پیٹ تھپتھپائی اوردوسرے دن بڑے طمطراق کے ساتھ اعلا ن کیا کہ اس کا قانون بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ طلاق ثلاثہ پر پابندی کے لئے عدالتی فیصلہ کافی ہے اور خاطی کے خلاف گھریلو تشدد ایکٹ کے تحت کاروائی کی جاسکتی ہے‘ ابھی اسے چار مہینے ہی گذرے ہیں کہ حکومت نے عجلت میں تیار کئے گئے مسلم