قران میں شادی او رطلاق کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ اگر اس پر عمل کیاجائے تو مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ کانگریس ایم پی رنجیت رنجن۔ ویڈیو

جمعرات کے روز لوک سبھا میں نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت کی جانب سے پیش کردہ تین طلاق بل پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے بہار سے تعلق رکھنے والی کانگریس کی مہیلا رکن پارلیمنٹ رنجیت رنجن نے حکومت بالخصوص مرکزی وزیر قانون پر الزام عائد کیا کہ اس نے محض ووٹ پولرائزیشن کی خاطر مذکورہ تین طلاق بل ایوان میں پیش کیا ہے۔

شریمتی رنجیت رنجن نے کہاکہ’’ اس بل کی وجہہ سے ہمیں قرآن پڑھنے کا موقع ملا ہے جس میں صاف طور پر لکھا کہ کس طرح شادی کی جائے او رطلاق دیا جائے‘‘۔

انہوں نے کہاکہ بل کو نامنظور کرتے ہوئے ایوان میں بتایا کہ مسلم سماج میں طلاق کے طریقہ کار کو لے مسلمانوں میں قرآنی تعلیمات کے متعلق شعور بیدار نہیں کیاگیا اور اگر حکومت سنجیدگی کیساتھ مسلم خواتین کی بقاء چاہتی ہے تواسے بل تیار کرنے سے پہلے مسلم سماج کے علماؤں سے ربط پیدا کرنا چاہئے تھا۔ مگر ایسا کرنے کے بجائے اپنی مرضی کے مطابق قانون بنادیا گیا جس سے مسلم خواتین کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔

انہوں نے تین طلاق کی ادائیگی کے بعد جیل پہنچائے گئے شوہر سے انصاف کی توقعات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ متاثرہ خاتون سزا کاٹنے والے شوہر سے کس طرح انصاف مانگ سکتی ہے اس بات کی وضاحت حکومت کو کرنا چاہئے۔

انہو ں نے کہاکہ دونوں میں قربت کے بجائے مزید دوری پیدا ہوگی اور شوہر کے دل میں اپنی بیوی کے متعلق مزید نفرت ہوگی۔

انہوں نے حکومت کے بل کو ڈھکوسلہ قراردیتے ہوئے کہاکہ ہندوستان میں ایسی کئی ہندو عورتیں جو تین طلاق نہ ہونے کے باوجود اپنی شوہروں کے ظلم وزیادتی اور طلاق کاشکار ہیں اگر حکومت کو بل لانا ہی تھا تو وہ صرف مسلم خواتین کے لئے کیو ں لے کر ائی اس میں ہندو عورتوں کو بھی شامل کرنا تھا۔

حکومت کے رویہ سے ایسا لگ رہا ہے کہ اسے ہند و عورتوں کی فکر نہیں ہے جن کے شوہر ناراضگی کی وجہہ سے طلاق دئے بغیر کسی دوسری عورت سے یا تو شادی کرلیتے ہیں یا پھر غیر قانونی رشتے بنائے رکھتے ہیں۔

رنجیت رنجن نے ہندو لڑکیوں کی عصمت ریزی کے واقعات کا بھی ذکر کیا اور کہاکہ بہار او راترپردیش میں تین ہزار سے زائد لڑکیوں کی عصمت ریزی کے واقعات رونما ہوا مگر وہ مسلم نہیں ہیں تو کیا انہیں انصاف سے محروم رکھا جائے گا۔

اپنی بحث کے اختتام میں رنجیت رنجن نے کہاکہ مسلم علماؤں کی رائے حاصل کرتے ہوئے اس بل میں ترمیم اور سلیکٹ کمیٹی کی سفارشات ضروری ہیں ۔