دائیں بازو کی تنظیمیں حب الوطنی کا پاٹھ توبرسوں سے پڑھا رہی ہیں لیکن گذشتہ تین ساڑھے تین سا کے دوران ان کی کارستانیاں کافی بڑھی گئی ہیں۔انہوں نے اس خام خیالی کے تحت حب الوطنی تھوپنا شروع کردیا کہ ان کے علاوہ کسی کے دل میں وطن کی محنت نہیں ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حب الوطنی کا ثبوت کبھی پیش نہیں کرسکتے۔
یہ جس شر پسندی کا مظاہرہکرتے ہیں وہ بھی حب الوطنی کے منافی ہے کیونکہ وطن سے محنت کا اولین تقاضہ یہ ہے کہ اہل وطن سے محبت کی جائے‘ دلوں کو توڑنے کے بجائے جوڑا جائے اور ہر فرقے کے لوگوں کے ساتھ مل کر وطن کی ترقی کے منصوبوں کو پورا کیاجائے ‘ مگر انہیں اس تقاضے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔یہ وطن کے امن پر خطرہ بن کر منڈلاتے رہتے ہیں اور خود کو محب وطن قراردیتے ہیں۔
ان کا اندازہ کچھ ایسا ہے جیسے ان کے علاو ہ سرزمین وطن پر جو بھی رہتا بستا ہے وہ محب وطن نہیں ہے۔یہ مسلمانوں کو برا بھلا کران کے خلاف طور مار باندھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں جبکہ مسلمانوں کی حب الوطنی زبانی اور دکھاوے کی نہیں ہے۔کسی کو ستانے یا اُس پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی بھی نہیں ہے ‘ بلکہ اصلی ہے جس کے ٹھو س شواہد موجود ہیں۔
آج بھی ہیں۔کل انہوں نے ملک کی آزادی کے لئے اپنی جانیں گنوائیں اور آج بھائی چار ہ اور سکیولرازم کی بقاء کے لئے مصروف جدوجہد ہیں۔مذکورہ تنظیموں اور ان کے لیڈران کے بیانات کو ہی سامنے رکھ کر دیکھ لیجئے کے ان سے حب الوطنی ٹپکتی ہے یا ہمو طنوں کے تئیں نفرت کا اظہار ہوتا ہے ؟ مرکزی وزیر اننت کمار ہیگڈے نے جو دستور ہند بدل دینے کا حالیہ مطالبہ کی وجہ سے ان دبوں بجا طور پر ہد ف تنقید بنے ہوئے ہیں‘ اپنے ایک اور بیان میں سکیولر لوگوں کو یہ کہتے ہوئی گویا گالی دی ہے کہ ’’ ان کے ماں باپ کا پتہ ہے نہ ہی یہ معلوم کے ان کی رگوں میں کس کا خون دوڑرہا ہے‘‘۔
اننت کمار جواتراکھنڈ سے رکن پارلیمان ہیں‘ اس سے پہلے بھی اپنے بیانات کے ذریعہ ہنگامہ مچاچکے ہیں۔ اور ایک اننت کمار ہیگڈے ہی نہیں ہیں جو سماج کو بانٹنے پر مامور ہیں بلکہ ایک پوری ٹیم ہے جس کے افراد طوفان اٹھاچکے ہیں یا وقتا فوقتا ایسا کرکے اسے بڑی کامیابی تصو ر کرتے ہیں۔ ان میں ساکشی مہاراج‘ سادھو نرنجن جیوتی‘ گری راج سنگھ ‘ یوگی ادتیہ ناتھ‘ بی جے پی اترپردیش یونٹ کے سابق نائب صدر دیاشنکر سنگھ‘ مدھیہ پردیش کے وزیرداخلہ بابو لال گوڑ‘ ہریانہ کے وزیراعلی منوہر لال کھٹر‘سادھوی پرچی اور ایسے ہی کئی لیڈران ہیں جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں اور سماج کوبانٹنے کی کوششوں کے ذریعہ بزعم خود بڑے دیش بھکت یا محب وطن بنتے ہیں۔
چونکہ ان کے خلاف کاروائی نہیں ہوتی اور اگر ہوئی بھی توواپس لے لی جاتی ہے اس کے لئے ان کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوتے۔دیاشنکر سنگھ نے بی ایس پی لیڈر مایاوتی کے خلاف ایسا لفظ استعمال کیاتھا جسے نقل کرنے میں بھی تردد ہوتا ہے ۔ اس کے پیش نظر انہیں معطل کردیا گیاتھا لیکن چند ہی ماہ بعد یہ معطلی ختم کرکے انہیں بحال کردیاگیا۔حال ہی میں ایک مرکزی وزیر ہنس راج اہیر نے مہارشٹرا کے شہر چند رپور میں ایک افتتاحی تقریب کے دوران کہاکہ اس قریب سے ج ڈاکٹرغیر حاضر ہیں انہیں چاہئے کہ نکسلیوں ں سے ہاتھ ملالیں ( تاکہ) ہم انہیں گولی سے آڑا دیں۔
کل تک کوئی سونچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بیانات کی یہ سونامی بہت کچھ بہالے جانا چاہئے گی۔ اس کے باوجود پارٹی اعلی کمان کو چپ لگی رہتی ہے اور یہ قابل اعتراض بیانات اپنا کام کرجاتے ہیں۔ کبھی کبھار سننے میں آتا ہے کہ وزیراعظم کو ان بیانا ت سے سخت تشویش ہے مگر اس کے بعد کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی پوچھے کہ کس کام کی ایسی تشویش؟۔