ممبئی۔ حامد انصاری جمعرات کے روز اپنے گھر پہنچا۔ فیس بک کے ذریعہ محبت کے جال میں پھنسے حامد کونومبر2012میں پاکستان میں اس وقت گرفتار کرلیاگیا تھا جب وہ فرضی شناختی کارڈ کے ذریعہ افغانستان کے ذریعہ پاکستان میں داخل ہورہا تھا۔
حامد دروازے پر کھڑے ہوکر مسکرایا ‘ فلیٹ میں داخل ہوا پہلی مرتبہ یہ اس کا گھر ہے۔مذکورہ 33سالہ انجینئر نے کہاکہ ’’ فیس بک پر کبھی عشق میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ میں اس واقعہ سے ایک سبق ضرور سیکھا ہے وہ یہ کہ اپنے والدین سے کچھ بھی نہ چھپائیں ۔
یہاں تک کہ اگر وہ تمہیں ڈرائیں گے تب بھی۔مجھے جذبات میں نہیں بہنا چاہئے تھا ۔ یہاں پر ایک قانون ہے جس پر مجھے عمل کرنا چاہئے تھا‘‘۔
مذکورہ ائی ٹی انجینئر اور مینجمنٹ گریجویٹ5نومبر2012کو افغانستان کے کابل ائیرپورٹ میں ملازمت کے لئے گیاتھا۔ وہ پاکستان میں غیرقانونی طریقے سے داخل ہوا جس کی وجہہ فیس بک پر ایک پاکستان لڑکی سے معاشقہ ہے۔
جاسوسی کے جرم میں پاکستانی ملٹری نے نومبر2012کو اسے کوہاٹ سے گرفتار کرلیا اور 15ڈسمبر 2015کے روزپاکستانی فوج کی جانب سے اسی تین سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد پیشاوارجیل میں قید کردیاگیا۔
پچھلے منگل کے روز پیشاوار جیل سے اس کی رہائی عمل میں ائی۔پاکستان میں گذارے وقت کے متعلق حامد نے کہاکہ ’’ میں سابق کی تمام باتیں بھولانا چاہتاہوں ‘ کیونکہ وہ خوفناک خواب کی طرح تھا‘‘۔
اس نے مزیدکہاکہ’’ یہ میری دوسری زندگی ہے۔ میری ساتھ جیل میں ایسا بہت کچھ ہوا ہے ‘ جس کی وجہہ سے ذہنی طور پر میں کافی تناؤ میں ہوں‘ میری اولین ترجیح خود کو ذہنی طور پر مستحکم کرنا ہے اور پھر ملازمت کی تلاش کروں گا‘‘۔
حامد نے کہاکہ میں فیس بک سے ’’ چھٹکارہ‘‘ چاہتاہوں جو کہ وقت کی ایک خرابی ہے۔اس نے کہاکہ ’’ میں نے اپنی زندگی کے چھ سال برباد کرلئے ہیں‘ اب میں چاہتاہوں میری زندگی پٹری پر ائے‘‘۔
انصاری کابھائی جو ماہر دانت ہے خالد انصاری نے کہاکہ ’’ حامد کی گھر واپسی تمام خاندان کے لئے ایک جذباتی لمحہ تھا۔ جب وہ گھر میں داخل ہوا ‘ تو اپنا بیڈروم اور اپنی تمام چیزیں دیکھ کر کافی خوش ہوا ‘‘۔گھر والوں کا کہنا ہے کہ اس نے پچھلے چار دونوں میں کافی کم نیند لی ہے۔
مرکزی وزیر برائے خارجی امور سشما سوراج کا مدد کے لئے شکریہ ادا کرتے ہوئے 59سالہ فوزیہ نے کہاکہ ’’ مجھے 2014کا الیکشن اب بھی یاد ہے‘ مجھے نے امیدکی کہ محترمہ سشما سوراج خارجی وزرات کاجائزہ لیں گے۔
جیسے ہی ان کا تقرر ہوا میں ان سے ملاقات کے لئے دہلی گئی۔ وہاں پر بہت سارے لوگ تھے جو پھولوں کاگلدستہ لے کر انہیں مبارکباد دینے کے لئے قطار میں کھڑے تھے‘ اور میں اپنے آنکھوں میں صرف آنسو لے کر گئی تھی۔
میں نے انہیں اپنی تمام کہانی سنائی اور ایک لیٹردیا۔ انہوں نے میری مدد کا وعدہ کیا اور اس پر قائم رہیں‘‘۔
ایم ایل اے کرشنا ہیگڈے نے قانونی کاروائی کے لئے درکار دستاویزات کی تیاری میں ہر ممکن مدد کی۔ ایڈوکیٹ مجید میمن جنھوں نے گھر والوں کی مدد کی نے کہاکہ ’’ فوزیہ اور ان شوہر پچھلے چھ سال سے میرے پاس آرہے ہیں۔
سال2015میں پیشاوارسے بہت سارے وکیل ممبئی ائے اور انہیں قاضی محمدانور کے طرف اپنا تعارف کروایا۔
ان لوگوں نے حامد کی پیشاوار جیل میں موجودگی کے متعلق جانکاری دینے میں ان کی کافی مدد کی ۔
میمن نے مزید کہاکہ ’’ اس کیس کے لئے پاکستان میں موجود وکلاء نے کوئی فیس نہیں لی ‘‘۔
سماجی جہدکار جتن دیسائی نے کہاکہ ’’ ہندوستان او رپاکستان کے بہت سارے لوگوں کی کاوشوں کا نتیجہ میں حامد آج وطن واپس لوٹا ہے‘‘