فلم اداکارپرکاش راج کا جذباتی خطاب۔ ویڈیو

فلموں میں اپنی منفرد اداکاری کی وجہہ پہچانی جانے والے اداکار ان دنوں کافی سرخیوں میں ہیں۔ کرناٹک میں ممتاز صحافی اور سماجی جہدکار گوری لنکیش کا قتل ہونے کے بعد مختلف انداز میں پرکاش راج ہندوتوا تنظیموں اور مرکز کی بی جے پی حکومت پر برسرعام پر تنقید کرتے آرہے ہیں۔ پرکاش راج مسلسل بی جے پی کو عوامی پلیٹ فارم سے فرقہ پرستی پھیلانے اور سماج کو بانٹنے کا مورد الزام ٹھراتے ہوئے آرہے ہیں۔ ان دنوں سوشیل میڈیا پر پرکا ش راج کا یہ ویڈیو تیزی کے ساتھ وائیرل ہورہا ہے جس میں وہ پرکاش راج ملک کے موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’’ میں یہاں پر اپنے لوگوں کے درمیان میں بنا اسکرپٹ کے کھڑا ہوں کیونکہ مجھے اپنے دل کی بات کرنی ہے اور یہاں پر سنسر بورڈ بھی موجود ہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم پر اپنا نظریہ ‘ سونچ نافد کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘ یہ لوگ نہ صرف ان کے خلاف کی آواز ‘ صحافت کوبلکہ ہر کسی کو اپنے زیر اثر لانے کی کوشش کررہے ہیں‘ میںیہا ں سے ہی شرو ع کرونگا میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ آواز کو دبانے کی کوشش کریں گے تو ایک بلند آواز پیدا ہوگی۔میں بات کرتا ہوں‘ میں اپنے آواز بلند کرتاہوں اس لئے نہیں کیونکہ میں کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہوں‘ میں بحیثیت ارٹسٹ یہ بات اٹھاتا ہوں کیونکہ مجھے ذمہ داری کا احساس ہے۔ وہ جو ہیں وہ ہیں ہم آرٹسٹ ہیں اگر ہم اس ذمہ داری کو قبول نہیں کریں گے تو بزد ل کھلائیں گے ۔

ہمیں ان لوگوں کے لئے آواز اٹھانی ہے جو اپنی آواز اٹھانہیں سکتے اس ذمہ داری کو ہمیں قبول کرنا چاہئے۔مسکراتے ہوئے پرکاش راج نے کہاکہ ’’ ان لوگوں نے مجھے دھمکایا مگر میں ان پر ہنسا‘ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں ’ایس درگا ‘فلم پر اعتراض ہے مگر انہیں درگاوائنس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ انہیں اس وقت کو اعتراض نہیں جب درگا نامی سڑک خستہ حال ہوجاتی ہے۔ خواتین و حضرات ہم جانتے ہیں ہندوتوا زندگی گذارنے کا سلیقہ ہے‘ مگریہ لوگ ہندوتوا اور قومیت کو یکساں قراردیتے ہیں۔ ماحول خراب کردیاگیا ہے سونچ‘ فکر ‘ فلموں ‘ اظہار خیال کی آزادی پر روک لگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اورایسا کر بھی رہے ہیں ۔

ایسی چیزوں کو فروغ دینے سے ہماری آنے والی نسلیں سونچنے بھی بند کردیں گے۔ مگر ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔اگر آج کوئی ہجوم کے ہاتھوں راجستھان میں قتل کردیاجاتا ہے اور اگر کسی کو ایک فلم کی وجہہ سے ناک کاٹنے اور سرقلم کرنے کی کھلے عام دھمکی دی جاتی ہے اور اس کا سرکاٹ کر درخت پر لٹکانے والے کے لئے انعام کی رقم کا اعلان کیاجاتا تو خواتین وحضرات ہمیں سونچنے کی ضرورت ہے۔

اس کی وجہہ پر ہمیں غور فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والا چیف منسٹر یہ کہتا ہے میں مجبور ہوں تو ہم اس سے کہیں گے کہ تم کرسی پر سے اتر جاؤ‘ تمہارا انتخاب اس لئے نہیں ہوا ہے ۔ ہم اقلیت ہیں اگر ہماری حفاظت تم نہیں کرسکتے تو اس کرسی پر بیٹھنے کا بھی تمہیں حق حاصل نہیں ہے ۔ لہذا یہ بات صاف ہے