نیشنل کانفرنس کے صدر اور رکن پارلیمان جناب فاروق عبداللہ صاحب نے نریندر مودی سے دھمکی بھرے انداز میں کہا ہے کہ آپ کشمیریوں کو ڈرانا اور دھمکانا بند کر دیں ، ہم نے ایسی بہت سی دھمکیاں سنی ہیں ، اگر آپ کے اندر اتنا دم ہے تودفع 370ہٹا کر دکھائیے ،ہم بھی دیکھیں گے کہ الحاق رہتا ہے کی نہیں ،شاید اللہ نے ہماری نجات اسی میں رکھی ہو ۔تم خدا نہیں ہو،اور نا کبھی خدا بن سکتے ہو ،خدا وہی ایک ہے اور وہی عزت اور ذلت دینے والا ہے ۔
فاروق عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار ایک انتخابی جلسہ کے دوران کیا ،جو مادرمہربان اسٹڈیم میں منعقد کیا گیا تھا ۔اس موقع پر جنرل سکیٹری محمد علی ساگر ،معاون جنر ل سکیٹری شیخ مصطفی کمال اور دوسرے اراکین موجود تھے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم صرف ریاست کے لئے نہیں بلکہ پورے وطن کے لئے لڑ رہے ہیں ،ہم چاہتے ہیں کہ یہ ایک وطن رہے جو سب کا وطن رہے ،اور ہندو مسلم سیکھ عیسائی سب کا وطن ہو ،وطن میں کچھ مغرور عناصر کا تکبر بڑھ گیا ہے ،وہ کہتے ہے کہ مودی کے بغیر کچھ ممکن نہیں ،اور اسکے بغیر ہندوستان بچ نہیں سکتا ۔شاید انکو معلوم ہو کہ کم قد والے لال بہادر شاستری نے بھی ہندستان چلایا ہے اور دیوے گوڈا نے بھی اس ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے ،اب مودی کو بھی جانا ہے اور جلد ہی جانا بہے اور ہندوستان تب بھی چلے گا و۔
انہوں نے کہا کے مودی اور امت شاہ سے جو بھی سوال پوچھتا ہے وہ اسے وطن مخالف قرار دیتے ہیں اور پاکستانی کہہ کر پکارتے ہیں ۔یہ لوگ ہمکو بھی پاکستانی بولتے ہیں ااگر ہمکو پاکستان جانا ہوتا 1947ء میں چلے جاتے ،ہمیں دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی تھی ،ہم نے کبھی اپنے اپ کو پاکستانی نہیں کہا ،ہاں مگر پاکستان کے ہمدرد ہیں کہ وہ زندہ رہیں ۔خود ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے لاہور میں مینار پاکستان کے پاس کھڑے ہو کر کہا تھاکہ میں ہندوستان کا وزیر اعظم اپ سے کہتا ہوں ہم پاکستان کو قبول کرتے ہیں اور ہم مظبوط پاکستان چاہتے ہیں تا کہ ہم دوستی سے رہ سکیں ۔ایک اور جگہ مخاطب ہو کر کہا تھا کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں مگر پڑوسی بدلا نہیں جا سکتا۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ بی جے پی والےکہتے ہیں کہ دفعہ370عارضی ہے، اگرآئین کہ یہ دفعہ عارضی ہے تو الحاق بھی عارضی ہے کیونکہ الحاق کی بنیاد رائے شماری تھی جس کو ہندوستان اورپاکستان نے اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل میں تسلیم کیا ہے، سیکورٹی کونسل کی قراردادیں آج بھی موجود ہیں، امت شاہ، مودی اوردیگر بھاجپا والوں کو ان کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ دونوں ممالک نے قراردادوں پرعملدرآمد میں اڑچنیں پیدا کی اور کئی سال اس پر لڑائی چلتی رہی، کبھی ایک ملک نے اعتراض جتلایا تو کبھی دوسرے ملک نے رائے شماری نہیں ہونی دی۔ پھرشیرکشمیرشیخ محمد عبداللہ کو جیل بھیج دیا گیا کیونکہ انہوں نے سر نہیں جھکایا۔ مرتے دم تک شیرکشمیر نے نئی دلی کے سامنے سر نہیں جھکایا، 1975میں بھی انہوں نے اُس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے وعدہ لیا تھا کہ آج نئی شروعات ہے، لیکن ہمیں واپس 1953کی پوزیشن پرجانا ہے، جس پر حامی بھری گئی تھی۔ اندرا گاندھی کو ارسال کیا گیا وہ خط آج بھی موجود ہے۔
(سیاست نیوز)