۔2019ء کے عام انتخابات میں جمہوریت کو بچانا ضروری : زعفرانی طاقتیں ملک کیلئے خطرہ
کولکتہ۔ 26 اگست (سیاست ڈاٹ کام) نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین نے کہا کہ 2019ء کے لوک سبھا انتخابات کیلئے تمام غیرفرقہ پرست طاقتوں کو متحد ہونا چاہئے اور بائیں بازو کو اس اتحاد میں شامل ہونے سے پس و پیش نہیں کرنا چاہئے، کیوں کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ ہمیں آمریت پسندی کے خلاف اپنی آواز اُٹھانا ضروری ہے۔ ہمیں آمریت پسندوں کے دوستوں کے خلاف بھی جنگ کرنی ہوگی۔ ہم کو مسائل پر تنقیدیں کرتے ہوئے ایک دوسرے کا ’’گریباں پکڑنے کے بجائے فرقہ پرستوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ فرقہ پرست طاقتیں ملک کیلئے سب سے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ مرکز کی بی جے پی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے امرتیہ سین نے کہا کہ صرف 31% ووٹ حاصل کرکے اور سیاست میں بدنیتی کے ساتھ ’’شیطانی منصوبوں کو لاگو کرتے ہوئے 2014ء کے لوک سبھا انتخابات میں اقتدار حاصل کیا ہے۔ آپ غور کیجئے تو پتہ چلے گا کہ 2014ء کے انتخابات میں کیا ہوا ہے، ایک پارٹی جس نے 55% نشستیں حاصل کی ہیں لیکن اسے31% ووٹ ہی ملے ہیں اور اس کی مدد سے وہ اقتدار پر آگئی۔ وہ کولکتہ میں ایک سوال جواب سیشن کے دوران خطاب کررہے تھے۔ نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین نے مزید کہا کہ اس مرتبہ ان کے دورہ کولکتہ کے دوران بعض گوشوں میں یہ آواز سنی ہے کہ بی جے پی میں آمریت پسندی کو روکنا ضروری ہے اور اس کو شکست دی جاسکتی ہے اور سی پی آئی ایم ابھی کمزور نہیں ہوئی ہے۔ یہ ایک عجیب منطق ہے کہ آمریت پسندی کو روکنے کیلئے ہم کو فرقہ پرستی کو ہی جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ اس فرقہ پرستی کی بیچ کو ہم نے کئی مرتبہ اُکھاڑ پھینکا ہے۔ اب بھی کوشش برقرار رہنی چاہئے۔ مستقبل میں بھی ان طاقتوں سے نبردآزما رہنا ہوگا۔ ہر ایک سیاسی سوال کو بائیں بازو اور دائیں بازو کی سوچ میں الجھا کر رکھا نہیں جانا چاہئے۔ امرتیہ سین نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے، اس خطرے کو صرف عوام ہی دُور کرسکتے ہیں۔ ہمارے اندر سدھار لاتے ہوئے اپنی جمہوریت کو بچایا جاسکتا ہے۔ ایک دوسرے سے دست گریباں ہونے کے بجائے ہم جمہوریت کی بقاء کیلئے کام کریں جو کوئی ڈوبتی کشتی نہیں ہے کہ جس کو ہم چھوڑ دیں۔ امرتیہ سین نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کا حوالہ دیا جہاں ملک میں ایک متوازی صورتحال پیدا کی گئی ہے، لیکن انہوں نے اس واقعہ کے لئے کسی پارٹی کا خاص طور پر حوالہ نہیں دیا۔ جے این یو میں بعض طلباء کو حراست میں لیا گیا۔ ان پر غداری کے الزام عائد کئے گئے اور کسی کیس میں الزام ثابت نہیں کیا جاسکا۔ ان طلباء کو حراست میں لے کر زدوکوب کیا گیا جو کسی بھی قانون کے مغائر ہے۔ آخر ان طلباء کو غداری کیس کے تحت محروس کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح غیرقانونی طور پر کارروائی کی گئی ہے۔ اب تک اُن کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے۔ جبکہ غداری کا الزام ثابت ہی نہیں ہوئے ہیں۔ اس مرتبہ آمریت پسندوں نے جے این یو کے طلباء کو غداری میں ماخوذ کیا ہے۔ آئندہ اس ملک کے کسی اور شہری کو غداری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آسام کے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کے مسئلہ پر انہوں نے کہا کہ ترنمول کانگریس نے احتجاجی مظاہرے کئے ہیں۔ اس میں بائیں بازو کو بھی ساتھ لیا جانا چاہئے۔