عینی شاہد کی ائی جی سے گوہار‘ پولیس نے جھوٹی شکایت لکھنے پر مجبور کیا۔ ہاپور ہجومی تشدد واقعہ

ہفتہ کے روز یسین نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے گھروالوں کو گاؤ ذبیحہ الزامات کے تحت گرفتارکرنے کی دھمکی کے بعد میں نے ایک شکایت پر میں نے دستخط کی ہے
اترپردیش۔ریاست کے ضلع ہاپور میں تقریب ایک ماہ قبل ہجوم کے ہاتھوں اس شخص کی ’’بے رحمی‘‘ کے ساتھ پیٹائی ہوئی اور دوسرا شخص64سالہ سمیع الدین ہجوم کے ہاتھوں مارے گئے تھے‘ واقعہ کے متعلق پولیس کے نظریہ سے الگ ان کا کہنا ہے کہ یہ مارپیٹ سڑک پر پیش ائے واقعہ کا نتیجہ ہے جس کا بدلہ لینے کے لئے گاؤ ذبیحہ کے نام پر ہجوم کو اکسا کر حملہ کرنے پر مجبور کیاگیا ہے۔

سمیع الدین اور دیگر دو ان کے بھائی یسین جس کی شکایت پر ایک ہاپور پولیس نے سڑک پر پیش ائے واقعہ کے ضمن میں ایک ایف آئی آر درج کی ہے اور دانش تومر18جون کو پیش ائے ہاپور حملے کے عینی شاہد نے میرٹھ زون ائی جی رام کمار کو لکھ کر اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ سرکل افیسر اور پیلاکھو پولیس اسٹیشن افیسروں کے خلاف کاروائی کی جائے جنھوں نے مبینہ طور پر ’’ جھوٹا‘ بے بنیاد اور فرضی شکایت‘‘ لکھنے کے لئے دھمکایاں دی ہیں۔

بذریعہ ای میل لیٹر وصول ہونے کی ائی جی کمار کے توثیق کرتے ہوئے کہاکہ ’’ ان کی جانچ کی جائے گی‘‘۔

ہفتہ کے رو ز یسین نے مبینہ طور پر کہاکہ انہیں ایک شکایت پر انہیں جبری طور پر یہ کہتے ہوئے دستخط کرنے پر مجبور کیاگیا ہے کہ ان کے گھر والوں کو گاؤ ذبیحہ الزامات کے تحت گرفتار کرلیاجائے گا۔

درایں اثناء نے تومر نے بھی مبینہ طورپر جھوٹی شکایت لکھنے کے لئے پولیس کی جانب سے مجبور کئے جانے کی بات کہی ہے جس پر یسین نے دستخط کی ہے۔ائی جی‘ ایس پی ہاپور اور میرٹھ زون اے ڈی جی کے نام یہ لیٹر روانہ کیاگیا ہے۔

جون18کے حملے کو یاد کرتے ہوئے 64سالہ شخص نے کہاکہ’’کچھ دور کے رشتہ دار پابی گاؤں میں رہتے ہیں اور وہاں پر ایک انتقال ہوگیاتھا‘ ہمیں وہاں جانا تھا۔

لہذا میں نے اپنے پڑوسی حسن کے ساتھ کھیتوں میں گیا تاکہ کچھ چارہ جمع کرسکوں‘‘۔ سمیع الددین کے پانچ سے چھ بیگا زراعی اراضی ہے اور ان کے پاس بھینس اور دو بچھڑے بھی ہیں’’ میں نے دیکھا کہ نو دس بیگا میرے بھائیوں کی بھی زمین ہے جو گاؤں میں نہیں رہتے۔

میرے زندگی کا انحصار زراعت پر ہے‘ زیادہ تر گیہوں اور چنااور اس سے میویشیوں کا چارہ بھی مل جاتا ہے‘‘۔ سمیع الدین جس کے ہاتھوں میں پٹیاں بندھی ہوئی تھی اور دائیں پیر پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔

جون18کے روز تقریبا11:30بجے کے قریب جب وہ کھیتوں میں کھڑے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ میویشوں کا ایک مقام تاجر قاسم ان کی طرف آرہا ہے ۔ اچانک اس نے کہاکہ دودرجن کے قریب لوگ بجہیرہ گاؤں سے آرہے ہیں۔ جیسے ہی وہ لوگوں کھیتوں میں پہنچے ‘ ان لوگوں نے قاسم کی پیٹائی شروع کردی۔

میں نے مداخلت کی اور پوچھا کیاہورہاہے ۔ تو ان لوگوں نے یسین کے ساتھ بھی مارپیٹ شروع کردی‘‘۔یسین نے بتایا کہ’’ ان لوگوں نے میری داڑھی کھینچی‘ لات اورگھونسے رسید کئے۔ ان لوگوں نے کہاکہ تم نے گائے ذبح کی ہے۔

میں نے کہانہیں۔ مگر ان لوگوں نے کچھ نہیں سنا اور ہمیں باجھیرا مندر کے طرف لے گئے‘ وہیں راستے بھر ہمیں پیٹتے رہے۔

ہمیں لکڑیوں‘ بلے سے مارتے رہے اور کھیتوں میں ہمارے سر پر پتھروں سے وار کیا‘ اس کے بعد میں نیم بیہوشی کے حالت میں چلا گیا‘‘۔

سمیع الدین نے کہاکہ انہیں یادپولیس کس وقت وہاں پہنچی مگر اتنا یاد ہے کہ کچھ اسپتالوں میں ہمیں لے کر پولیس پھر رہی تھی۔ سمیع الدین کو یاد ہے کہ جب وہ نیم بیہوشی کے عالم میں تھے تو پولیس قاسم کی موت کے متعلق بات کررہی تھی‘ اور یہ نوٹس کیا کہ پولیس ان کے انگوٹھے کے نشان لے رہی ہے۔