عید الاضحی : تو مسلماں ہے تو تقدیر ہے تدبیر تری ۔۔۔ بقلم : ڈاکٹر سید ظفر محمود 

عید الاضحی میں ہم مسلمانان ہند کیلئے دونو ں طرح کے امتحان ہونے والے ہیں ۔ وہ امتحان جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہوا تھا او روہ بھی جو ان کے فرزند کا ہوا تھا ۔لہذا سمجھداری اسی میں ہے کہ ہم ابھی سے خوب غور وفکر کر کے لائحہ عمل طئے کریں ۔ اہل وطن نے بات شروع کی تھی کہ گائے ذبیحہ کی ممانعت سے لیکن معلوم ہوا کہ وہ تو بڑے مقصد کا تمہیدی بیان تھا ۔ اس بہانے پورے ملک میں ایسے فعال دستوں کی تشکیل ہوگئی چوکسی کرنے کیلئے کہ کوئی گؤ کشی تونہیں کررہا ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ گاؤں ، محلوں میں بیروزگارنوجوانوں کو یہی روزگار مل گیا ہے کہ کڑی نظر رکھیں کہ کہیں گؤ کشی تونہیں کی جارہی ہے۔ ان کے پاس ہتھیار بھی ہیں ، بد مست ہونے کیلئے شراب بھی ، ان میں مخبر بھی ہیں اور اچھی کارروائی کرنے کے بعد ان کی پذیرائی کی جاتی ہے ۔ اس کام پر تعینات یہ نوجوان سرکاری ملازم نہیں ہیں لیکن اس معاملہ میں فی الحال ہمارا ہندوستان پڑوسی ملک چین کے طرز پر کام کررہا ہے ۔

ہندوستان میں اگر کسی شہری کے گھر میں بیف ہونے کا شبہ بھی ہوتو وہ قریب ترین چوکسی دستہ کے ذریعہ متحرک حملہ کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں او رسرکار حیران نہیں ہوتی ۔ بہرحال اس خلاف معمول دستور شکنی کے پس منظر میں عید الاضحی آرہی ہے او رمسلمان اپنے پیغمبر کی قربانی کی یاد گار کوتازہ کرنے کیلئے خود کسی جانور کی قربانی کرنے میں روحانی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ زمانہ ابراہیمی میں مویشیوں کی تعداد ہی انسانوں کی دولت او ران کی انفرادی خاندانی خوشحالی او راقبال مندی کا پیمانہ ہوتی ہے۔ مشہور عالم مفسر عبداللہ یوسف علی کے مطا بق اپنے پسندیدہ جانو ر کی قربانی کرکے اس کا گوشت ضرورتمندوں اہل خاندان او ردوست احباب میں تقسیم کرنا دور ابراہیمی میں اللہ کے بندوں سے انسان کی بے لوث محبت جتانے کا سب سے اہم طریقہ تھا ۔