علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی موقف پر سنگھ پریوار کا نیا تنازعہ

داخلوں میں دلتوں کیلئے کوٹہ کیوں نہیں؟ 8 اگست تک جواب دینے ایس سی/ ایس ٹی کمیشن کی ہدایت

دستور کی دفعہ 30 اور ترمیمی قانون کے تحت یونیورسٹی کو
اقلیتی موقف حاصل: وائس چانسلر طارق منصور

لکھنو۔4 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) اترپردیش کے درج فہرست طبقات و قبائل کمیشن نے دعوی کیا ہے کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کوئی ’’اقلیتی ادارہ‘‘ نہیں ہے اور یونیورسٹی سے آج اس بات پر وضاحت طلب کی کہ آیا وہ اپنے پاس داخلوں میں درج فہرست طبقات و قبائل کے لیے تحفظات کیوں نہیں دیتی۔ اس کمیشن نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت کے لیے کہا ہے اور 8 اگست تک جواب دینے کی خواہش کی گئی ہے۔ اترپردیش ایس سی / ایس ٹی کمیشن کے چیرمین برج لال نے اخباری نمائندوں سے کہا کہ ’’اے ایم یو کوئی اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ ایس سی… ایس ٹی کو تحفظات نہ دیئے جانے پر میں اس کو ایک نوٹس جاری کرچکا ہوں۔ اے ایم یو کے رجسٹرار کو نوٹس روانہ کی گئی ہے۔ ان سے 8 اگست تک جواب دینے کے لیے کہا گیا ہے۔‘‘ برج لال نے مزید کہا کہ ’’ہم نے پوچھا ہے کہ ایس سی / ایس ٹی طبقات کو آخر کیوں تحفظات نہیں دیئے جارہے ہیں اور کن حالات میں ایسا کیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے مزید ایسے کوئی احکام جاری نہیں کئے ہیں جن کے تحت تحفظات کے فوائد کی فراہمی سے اے ایم یو کو روکا گیا ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ہدایات کی روشنی میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اے ایم یو کوئی اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اے ایم یو بھی کسی دوسری سنٹرل یونیورسٹی جیسی ہے جو مرکزی قانون کے تحت قائم کی گئی ہے اور اس (مرکز) کے فنڈس سے چلائی جاتی ہے۔ چنانچہ اس کو بھی تحفظات دینا ہی ہوگا۔‘‘ قومی کمیشن برائے درج فہرست طبقات کے صدر نشین رام شنکر کٹاریہ نے بھی گزشتہ روز علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو تحفظات کے مسئلہ پر وضاحت کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اے ایم یو کے اقلیتی ادارہ ہونے سے متعلق دعوی کی یو پی اے حکومت نے تائید کی تھی لیکن مودی کے زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے اس سے برعکس موقف اختیار کی ہے اور اے ایم یو کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ایک حلفنامہ داخل کی ہے۔ یہ تنازعہ گزشتہ ہفتہ اس وقت شروع ہوا تھا جب اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ اے ایم یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) کو چاہئے کہ درج فہرست طبقات و قبائل کوٹہ مختص کریں۔ اے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے گزشتہ روز پی ٹی آئی سے کہا تھا کہ ’’ہم دستور پر تعمیل کرتے ہیں جس کی دفعہ 30 میں مذہبی ولسانی اقلیتوں کو اپنے طور پر تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کی اجازت حاصل ہے۔ پروفیسر طارق منصور نے دعوی کیا کہ سپریم کورٹ نے واضح طور پر ہدایت کی ہے کہ اے ایم یو حکام بدستور 1981ء کے اے ایم یو ترمیمی قانون کے مطابق اس ادارہ کے انتظامات جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس ترمیمی قانون میں سپریم کورٹ کے قطعی فیصلے تک اے ایم یو کو اقلیتی تعلیمی ادارہ کا موقف دیا گیا ہے۔