ایک اضطرابی فیصلہ جس نے ہجومی تشدد کے خلاف قانونی لڑائی میں ایک تاریخ رقم کردی
نئی دہلی: ۲۹ ؍جنوری 2017ء کو گوشت کے تاجر 45؍ سالہ علیم الدین انصاری جھار کھنڈ کے رام گڑھ ضلع سے جب اپنی ماروتی ویان لے کر نکلے تو ان کے خواب و خیال میں بھی یہ نہیں رہا ہوگا کہ یہ ان کا آخری سفر ہے۔
شدت پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کے ایک گروہ نے رام گڑھ کی مارکیٹ میں انہیں روکا اور دن دھاڑے انہیں پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔حملہ آورں کو شبہ تھا کہ علیم الدین اپنی گاڑی میں ’’گائے کا گوشت‘‘ لے جارہے ہیں۔
اور ان کی گاڑی کو آگ لگادی ۔علیم الدین نے اسپتال پہنچے کے بعد دم توڑدیا۔
اس وحشیانہ کاررائی کی اطلاع جیسے ہی ایک مسلم وکیل محمد شاداب ملی ۔انہوں نے اپنے دو ساتھی ۳۵؍ سالہ راجو اور ۲۹ ؍ سالہ ممتاز انصاری جودونوں پیشہ سے وکیل ہیں۔شاداب ان دونوں کے ساتھ علیم الدین کے مکان پہنچ کر انہیں تسلی دی۔اور عدالت میں ان کا مقدمہ لڑنے کا تیقن دیا۔
ان تینو ں وکلاء نے حقائق کا پتہ لگا نے کے لئے ’’ فیکٹ فائٹڈنگ ‘‘ نامی ایک ٹیم بنائی۔علیم الدین انصاری کے قاتلوں کو سزا سنانے کے بعد شاداب انصاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں احساس ہوگیا تھا کہ کوئی وکیل متاثرہ خاندان کا مقدمہ لینے اور عدالت میں ان کی پیروی کے لئے تیار نہیں ہورہا تھا۔
انہوں نے مزید کہاکہ چونکہ یہ واقعہ ،گؤ رکشا کے نام پر غنڈہ گردی کرنے والوں کو وزیر اعظم کی وارننگ کے چند ہی دن بعد پیش آیا تھا اس لئے مقامی انتظامیہ پر کارروائی کا شدید دباؤ تھا ۔انہوں نے کہا کہ میں وکیل استغاثہ سشیل کمار شکلا اور ایس پی کشور کوشل نے اس معاملہ میں کافی تعاون کیا۔