عظیم اتحاد کی ریالی میں بی ایس پی‘ ایس پی کے حامی ضرور ہیں مگر مغربی یوپی کے جاٹ اکثریت والے علاقے میں دراڑیں صاف نظر آرہی ہیں۔

علی گڑھ/فتح پور سکری۔ ایک درمیانی عمر کے کسان کا استفسار تھا کہ’’ انہوں (بی جے پی) نے محبوبہ مفتی کے ساتھ کشمیر میں حکومت نہیں بنائی؟ کیا انہو ں نے پتھر بازوں کو رہا نہیں کیا؟ کیا وہ ماضی میں ایک مرتبہ مسعود اظہر کو رہاکرنے والے نہیں ہیں؟

۔یوپی کے لوک سبھا حلقے فیروز آباد کے اسمبلی حلقہ جاسرانہ کی کھڈیتپول میں مندر کے قریب ایک سیکل بنانے والی دوکان چلانے والے درمیانی عمر کے رویندرا نے کہاکہ’’ میں نے کبھی سیکل کو ووٹ نہیں دیا ہے‘ مگر اس مرتبہ الائنس ہے لہذا میں ان کے لئے ووٹ کروں گا‘‘۔

رویندرا کا تعلق جاتوا کمیونٹی سے ہے جو مایاوتی کا کٹر حامی ووٹ بینک ہے جس نے ریاست میں پچھلے سال اکھیلیش یادو سے الائنس سے قبل سماج وادی پارٹی کے خلاف ووٹ ڈالتارہا ہے۔

مگر جس طرح رویندرا کے انتخا ب سے اشارہ ملتا ہے ‘کہ فیروز آباد ‘ علی گڑھ ‘ ہتھراس ‘ فتح پور سکری ‘ ماتھرا اور ایٹاھ میں اس سماج کے اندر کوئی الجھن نہیں ہے۔ مغربی یوپی میں اگر اس بات کا جائزہ لیاجائے تو جہاں دوسرے مرحلے میں 18اپریل کے روز رائے دہی مقرر ہے یوپی کے گٹھ بندھن پر کوئی الجھن دیکھائی نہیں دے رہی ہے جبکہ یادو کمیونٹی سماج وادی پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی مانی جاتی ہے۔

سوائے فیروز آباد کے کہیں پر بھی اکھیلش یادو اور ان کے چچا شیوپال یادوکے درمیان لوگ کھڑے نظر نہیں آرہے ہیں ۔یہاں سے اکھیلیش کے چچازاد بھائی اکشے یادو کو خود شیو پال کے خلاف کھڑا کیاگیا ہے۔

اس کے علاوہ بی جے پی حکومت کے ریاست اور مرکز میں غلط پالیسیوں کی وجہہ سے عوامی برہمی بھی واضح ہے۔ ہتھراس لوک سبھا حلقہ کی جی ٹی روڈ سے متصل ٹولی گاؤں سے تیس سالہ رام کمار یادو کا کہنا ہے کہ ’’ دودھ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔

مودی یوگی کی اس حکومت میں ہمیں ہاشتہ پر لا کھڑا کردیاہے۔ میں نے مودی لہر کے وقت2014میں بی جے پی کوووٹ دیاتھا مگر اس مرتبہ نہیں دونگا‘‘۔

مگر ایس پی ‘بی ایس پی گٹھ بندھن کے طور پر تیسرے ستون کے طور پر کام کرنے والی اجیت سنگھ کی آرایل ڈی کو نہایت بااثر جاٹ سماج کی پوری حمایت ملے گی۔

الائنس کے تحت آر ایل ڈی سیاسی طور پر حساس یوپی میں80لوک سبھا سیٹوں میں سے تین سیٹوں پر مقابلہ کررہی ہے جبکہ بی ایس پی38اور ایس پی نے37سیٹوں پر اپنا امیدوار کھڑا کیاہے۔

اور جاٹ مغربی یوپی میں قابل اثر رائے دہندے ہیں ‘ فتح پور سکری‘ ماتھرا ‘ علی گڑھ ‘ ہتھراس‘ بلند شہر‘ غازی آباد‘ گوتم بدھ نگر‘ باغپت: کیرانہ‘ مظفر نگر ‘ میرٹھ‘ امروہا‘ بجنور‘ نگینہ‘ اور سہارنپو ر وہ علاقے ہیں جہاں پر جاٹ سماج کی تعداد کافی بڑی ہے۔

علی گڑھ لوک سبھا سیٹ کے ذکر پور معاملہ کو اگر دیکھیں تو یہ اس وقت سرخیوں میںآیاتھا جب مایاوتی کی اس وقت کی بی جے پی حکومت کے دوران یمونا ایکسپریس وے انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھاریٹی کی جانب سے 2010میں حصول اراضی کے خلاف احتجاج کے دوران تین کسان مارے گئے تھے۔ پڑوسی کے گھر پر بیٹھے ایک درمیانی عمر کے جاٹ کسان دیو دت سنگھ نے کہاکہ’’ فصلوں کی قیمت ٹھیک نہیں ہے۔

مذکورہ بی جے پی حکومت ہندو مسلم پولرائزیشن کر رہی ہے۔ ان کی حکومت نے عدم روداری کو فروغ دیا ہے۔ سنگھ کو دیگرپڑوسیوں نے روکتے ہوئے پچھلے پانچ سالوں میں اپوزیشن کی جانب سے پارلیمنٹ میں دئے گئے بیانات کی نقل کی ۔

فوری بعد انہوں نے علی گڑھ سے بی ایس پی امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا۔ گاؤں کے باہر یمونا ایکسپریس سے گذرنے والے نچلی سڑک پر بیٹھے کچھ کسان تاش کھیل رہے تھے۔ انہوں نے ایک الگ ہی بات کہی۔

ان میں سے زیادہ تر نے بی جے پی کی حمایت کا اعلان کیا سوائے دو کے جنھوں نے 2004-09تک علی گڑھ سے رکن پارلیمنٹ رہے کانگریس امیدوار کی حمایت کرنے کی بات کہی۔

بجنور اورمغربی اترپردیش کے دیگر علاقوں میں جاٹ سماج کا اشارہ واضح رہا اور انہوں نے صاف طور پر ایس پی‘ بی ایس پی ‘ آر ایل ڈی امیدواروں کے حق میں اپنے ووٹ کے استعما لکی بات کہی۔