عصمت ریزی کے واقعات میں ملوث درندہ صفت لوگوں کے لئے سخت سزائیں ناگزیر

دنیا کے کسی بھی مذہب ‘ ملک اور حصہ میں عصمت ریزی کے مرتکبین کے لئے رحم کی گنجائش نہیں ہے۔ مختلف ممالک میں اس گھناؤنے جرم کے لئے دل کو دہلادینے والی سزائیں دی جاتی ہیں ۔ دنیاکے کئی ایسے مغربی‘ ایشیائی اور عرب ممالک ہیں جہا ں پر عصمت ریزی او رقتل کے واقعات میں ملوث لوگوں کے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ سخت سزاؤں اور قوانین کے باوجود اس طرح کے گھناؤنے جرائم کم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔

اب تو انتہا یہ ہوگئی ہے کہ معصوم بچیاں بھی درندہ صفت شیطانوں کی حواس کا شکار ہورہی ہیں۔پچھلے کچھ سالوں میں اس طرح کے واقعات منظرعام پر ائے ہیں‘ جن میں اٹھ ماہ کی معصوم سے لیکر دس اور گیارہ سال کی نابالغ لڑکیوں کو بھی شیطان صفت درندوں نے نہیں بخشا ہے۔

پچھلے دنوں جموں او رکشمیر کے ضلع کتھوا میں اٹھ سال کی معصوم کی اجتماعی عصمت ریزی اور بے رحمانہ قتل کے بعد اترپردیش کے اونناؤ میں ایک نابالغ کے ساتھ عصمت ریزی کے واقعہ نے ہندوستان کی شبہہ کو بین الاقوامی سطح پر متاثر کیا ہے ۔

ملک بھر میں ان واقعات کے خلاف احتجاج کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ اسی دوران گجرات کے سورت میں ایک گیارہ سال کی معصوم کے ساتھ درندگی اور اس کے بے رحمانہ قتل کا واقعہ بھی سامنے آیا اور اس کے بعد اترپردیش کے ایٹھا میں شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے ائی ایک سات سال کی معصوم کے ساتھ عصمت ریزی کے بعد اس کے قتل کا واقعہ منظرعام پر آیا۔

اس طرح کے گھناؤنے جرائم کے بڑھتے واقعات نے نہ صرف انسانیت کو شرمسار کیاہے بلکہ یہ واقعات بین الاقوامی سطح پر ملک کی امیج کو بھی متاثر کررہے ہیں۔ وزیر اعظم نریند رمودی کے یوکی دورے کے موقع پر لندن کی سڑکوں پر بکر والا سماج کی معصوم کشمیری لڑکی کے ساتھ انصاف کے لئے شدید احتجاج اور استنبول ائیرپورٹ پر عصمت ریزی کے بڑھتے واقعات پر تشویش پر مبنی ٹی شرٹس کے ساتھ احتجاج اس بات کا واضح ثبوت ہے۔

اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے درندہ صفت سونچ کے حامل لوگوں کے اندر ڈر او رخوف کا ماحول پیدا کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ ان دنوں سوشیل میڈیا پر ایک ویڈیو تیزی کے ساتھ وائیر ل ہورہا ہے ۔

جس کے متعلق قیاس ہے کہ یہ ویڈیو کسی افریقہ ملک کا جہاں پر عصمت ریزی کے واقعہ میں ملوث ایک سیاہ فام شخص کے ہاتھ پیر باندھ کر لٹکادیاگیا ہے اور اس کی شرم گاہ سے ایک بڑے پتھر کو باندھ کر سزا دی جارہی ہے ۔

خاطی شخص کے چیخنے او رچلانے کی آوازوں سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ وہ کس قدر کرب کی منزل سے گذر رہا ہے ۔ معصوم بچیوں کی عصمت ریزی اور بے رحمانہ قتل میں ملوث لوگ اگر اس کرب کا احساس کرلیں اور سونچیں کے درندگی کے وقت وہ معصوم پر کیاگذری ہوگی اس کا اندازہ کرلیں تو یقین کہ ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انسانیت کو شرمسار کرنے والے اس طرح کے گھناؤنے واقعات کی روک تھام ہوجائے گی۔

حالانکہ حکومت ہندنے قوانین میں ترمیم کے ذریعہ صفر سے بارہ سال کی عمر کے بچیوں کی عصمت ریزی میں ملوث درندوں کو سزاء موت کا قانون لاگو کردیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ہند اس قانون کو زمینی حقیقت میں کس طرح تبدیل کرتی ہے۔