جس طرح اترپردیش ا ربہار کے لوک سبھا ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے ائے ہیں اس نے نہ صرف سیاسی پارٹیوں کو بلکہ سیاسی مبصرین کو چونکا دیا ہے ۔ ان ضمنی انتخابات کو ایک طرح سے2019کے پارلیمانی الیکشن کا سیمی فائنل سمجھا جارہا تھا جس میں بی جے پی کوسخت ہار کاسامنا کرنا پڑا۔اترپردیش گورکھپور اور پھلپور کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ یویی میں مودی او ریوگی کا جادو اب ٹوٹ رہا ہے۔
یوپی میں سماج وادی پارٹی او ربہوجن سماج پارٹی کے درمیان جو انتخابی مفاہمت ہوئی ‘ اس نے ایک طرح سے بی جے پی کودھول چٹادی ہے۔ ان انتخابی نتائج کے بعد یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ 2019کے پارلیمانی الیکشن سے پہلے سکیولر پارٹیوں کے درمیان انتخابی میل ہوسکتا ہے۔ بہار کے آریا سیٹ آر جے ڈی کے قدر آور لیڈر تسلیم الدین کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی جہا ں سے ان کے بیٹے سرفراز احمد نے بی جے پی کو ہرا کر سیٹ برقرار رکھی ہے۔
سرفراز احمد کی فتح ہمدردی کے تحت ملنے ووٹ پر کہی جاسکتی ہے لیکن اس با ت میں بھی سچائی ہے کہ بی جے پی او رنتیش کمار کی جے ڈی یو مفاہمت کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب بی جے پی کو شکست کاسامنا کرنا پڑا۔ جہا تک پھلپور کی سیٹ کا سوال ہے تو 2014کے الیکشن کو چھوڑ دیں جب یوی کے نائب وزیراعلی کیشو پرساد موریا کو زبردست فتح حاصل ہوئی تھی یہ پارلیمانی انتخابی حلقہ سماج وادی پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔
بی جے پی کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اتنے بڑ ے پیمانے پر سماج وادی پارٹی کے امیدوار کو بہوجن سماج پارٹی کے ووٹ منتقل ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی کو اس بات پر حیرانی ضروری ہوئی ک ہوقار کی سیٹ سمجھی جانے والی پھولپور کی سیٹ اس کے ہاتھ سے نکل گئی ۔ جہاں تک گورکھپور کو سوال ہے تو یہاں پر 1998سے لیکر 2014تک اس سیٹ پر گورکھ ناتھ مندر کا غلبہ تھا اور خود وزیراعلی یوگی ادتیہ ناتھ یہاں سے 1998سے لیکر2014تک مسلسل پانچ مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوتے رہے ہیں۔
گذشتہ الیکشن میںیوگی ادتیہ کو یہاں سے تقریبا 52فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ سماج وادی پارٹی کو21.75فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے اور ایس پی کو16.95فیصد ووٹ ملے تھے۔ یوگی ادتیہ ناتھ کے استعفیٰ دینے کے بعد گورکھپور پارلیمانی حلقہ کی نشست خالی تھی او رضمنی انتخابات میں بی جے پی نے اوپیندر دت شکل کو اپنا امیدوار بنایا جبکہ سماج وادی پارٹی نے پروین کمار نشاد کو امیدوار مقرر کیاتھا۔
ایسا نہیں کہ گورکھپور کی اہم سیٹ پر یوگی ادتیہ ناتھ نے انتخابی مہم میں کوئی کوتاہی برتی ہو۔ انہو ں نے ایک درجن سے زائد انتخابی جلسوں حصہ لیا لیکن جس طرح سے بی جے پی کی مرکزی حکومت او ریاست کی یوگی سرکاری عوام کی امیدوں پر کھری اترنے میں ناکام رہی اس کا خمیازہ گورکھپور کی شکست کی شکل میں سامنے آیا۔
گورکھپور کی شکت کی ایک او ربڑی وجہہ یہ دیکھنے میں ائی کہ اگر سماج وادی پارٹی او ربہوجن سماج پارٹی کے درمیان کوئی مفاہمت ہوتی ہے تو اس کے سامنے بی جے پی نہیں ٹھر پاتی۔ یہ صورت حال اس وقت بھی دیکھنے میں ائی تھی ‘ جب 1993کے ریاستی الیکشن میں ان دنوں پارٹیوں نے انتخابی اتحاد کیاتھا جس کے نتیجہ میں رام مندر کا مسئلہ اپنے پورے زور پر ہونے کے باوجود بی جے پی کوشکست کا سامنا کرنا پڑاتھا
۔ضمنی انتخابات کے ان نتائج نے سیدھا طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ اگر ہم خیال سکیولر پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر آجائیں تو بی جے پی کوآسانی سے شکست دی جاسکتی ہے۔ ابھی تک سکیو لر پارٹیاں ہاتھ ملانے میں ہچکچا رہی تھیں۔ اب شائد ان کی ہچکچاہٹ دور ہوجائے ۔
ابھی ایک روز قبل جس طرح سے کانگریس کی لیڈر سونیاگاندھی نے تمام سکیولر پارٹیوں کے لیٹران کوڈنر پر بلاتھا اس سے عام طور پر یہی پیغام گیا کہ سکیولر پارٹیاں آپس میں ہاتھ ملانے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہیں۔
اس عشائیہ میں ہندوستان بھر کی 19پارٹیوں کے نمائندے شریک ہوئے جنہو ں نے اس بات کاعزم کیاکہ سکیولر پارٹیوں کے اتحاد کا وقت آگیا ہے ۔ اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ 2019کے عام انتخابات کے دوران ایک ایسا اتحاد وجود میںآجائے گا جو بی جے پی کو چیلنج دینے کی پوزیشن میں ہو۔