عدلیہ بنام چیف جسٹس آف انڈیا۔ کلدیب نیر

اس معمولی بات پر غیرمعمولی جوش وخروش کہیے یا کچھ اور یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ عدلیہ بے نقاب ہوچکی ہے۔ جس غیرجانبداری کے لئے اسے سب جانتے رہے ہیں ۔ وہ لڑکھڑا گئی ہے۔ پہلی بار ججوں کو عوام کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔یہ وہ بہترین سہ سرخی ہے جو میں نے ایک روزنامے میں دیکھی ۔ اس میں پوری کہانی بیان کردی لیکن پھر بھی کئی باتیں کہے بغیرچھوڑ دی گئیں۔ سپریم کورٹ کے چار ججوں جسٹس چیلامیشوار‘ رنجن گوگوئی‘ بھیم راؤ لوکر اور کورین جوزف نے پریس کانفرنس کرکے تاریخ رقم کردی۔ کانفریس میں اس بارے میں انہوں نے بیان کیاکہ چیف جسٹس آف انڈیاکیا کرتے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مشرا برابر کے افراد میں پہلے ہیں۔

نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم ۔ لیکن ان کا الزام ہے کہ چیف جسٹس خود کو سبس ے برتر بنارکھا ہے۔ چارججوں کے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس برسرعام حریف گیری نے لوگوں کو سکتے میں ڈال دیا۔ لیکن حکومت نے مداخلت نہ کرکے اگور عدلیہ پراس معاملہ کا تصفیہ چھوڑ کر ٹھیک کیا۔ فطری طور پر سابق چیف جسٹس صاحبان نے چار ججوں کی اس کانفرنس پر جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی اظہار افسوس کیاہے۔

اپنے ردعمل میں سابق چیف جسٹس آر ایم لودھا نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ایسا کھولتا ہوا مسئلہ دومہینوں تک دبا کیوں رہا۔ آج واقعہ سے میں بہت پریشان او ر فکر مند ہوں۔ جو کچھ آج ہوا وہ ایسے شخص کے لئے بہت افسوس ناک اور تکلیف دہ ہے۔ سپریم کورٹ جیسے ادارے کا صدرنشین رہا ہو۔

خط کو منظر عام پر لائے جانے سے متعلق اپنے ردعمل میں سابق چیف جسٹس کا یہ کہنا حق بجانب ہے کہ چیف جسٹس کو اس معاملے پر ججوں سے بات کرکے مسائل کو سلجھانے چاہئے تھا۔

جیسا کے چار ججوں کا کہنا ہے کہ معاملات شاید اتنے سنگین نہ ہوتے لیکن وہ اس بنا پر توجہ طلب تھے کہ چیف جسٹس آف انڈیااو ر دوسرے سب سے زیادہ سربرآوردہ جج جسٹس چیلامیشوار موخرالذکر کے میڈیکل کالج میں بدعنوانی کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والے ایک مقدمہ پانچ بڑے ججوں کی بنچ کو تفویض کرنے کے بعد سے جاچاتی چلی آرہی ہے ۔ اڈیشہ ہائی کورٹڈ کے سابق جج ایم قدوسی کے اس میں ملوث ہونے کا شک تھا۔

لیکن اس فیصلے کو پابچ ججوں کی کانسٹی ٹیوشن نے پلٹ دیا جس نے یہ فیصلہ دیا کہ چیف جسٹس آف انڈیا روسٹر کا مالک ہے او رصرف وہی مقدمات مختلف بنچوں کو تفویض کرسکتا ہے۔ ججوں کے درمیان اختلافات کی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں ایسی مثالیں سامنے ائی ہیں جب عدالت عظمیٰ کے ججوں کے درمیان بعض معاملات میں ٹھن گئی۔

سال1970اور80کے دہوں میں جسٹس وائی وی چندر ا چڈااور ان کے جانشین جسٹس بی این بھگوگی کے درمیان رسہ کشی یاجسٹس اے ایم احمدی اور جسٹس کلدیب سنگھ کے درمیان اختلافات ‘ بغاوت کے بجائے نظم وضبط کی خاصی تصور کئے جاتے تھے۔اختلافات خواہ کچھ بھی ہوں ‘ موجودہ چار ججوں کی پریس کانفرنس سپریم کورٹ جیسے اس ادارے کے وقار او راخلاقی حیثیت پر جو داغ لگایاہے وہ دھل نہ سکے گا۔

چیف جسٹس آف انڈیا کے نام اپنے خط میں چاروں ججوں نے بجا طور اصلاحی اقدامات کی درخواست کی ہے تاکہ وہ انہیں مختصراً یکساں نوعیت کے عدالتی احکامات کے بارے میں مختصرا بتاسکیں جن پر ان کی طرف سے کاروائی کی ضرورت ہو۔ قانون کی بالادستی پر مبنی ہمارے نظام عدل میں بشمول چیف جسٹس کوئی بھی اس سے بالاتر نہیں ہے ۔

اس میں شکت نہیں کہ بنچوں کی تشکیل کا اختیار سی اے ائی کے ہاتھ میں ہے لیکن اختیارات کا استعمال تحکمانہ طور پر ہورہا ہے نہ کہ منصفانہ انداز میں۔عدلیہ عوامی زندگی کا بہت اہم حصہ بن گئی ہے ۔ سیاست دانوں میں قانون کے ذریعہ ہی نظم وضبط پید کیاجاسکتا ہے ۔ اگر عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان صرف اپنے لئے سوچیں گے اور قانون کو نظر انداز کردیں گے تو جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔