سی بی آئی کی جانب سے ایک بیان نے جے این یو کے لاپتہ چل رہے طالب علم نجیب کے کیس کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے۔ عدالت نے سی بی آئی سے پوچھا تھا کہ آیا وہ نجیب کو زندہ مانتی ہے یا مردہ؟ اس پر سی بی آئی نے جواب میں کہا ہے کہ نجیب کو آخری بار اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ ہاسٹل سے جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ وہ خود سے گیا ہے۔
دوسری طرف، سی بی آئی نے نجیب کے موبائل فون کی کال ڈیٹیل ریکارڈ( سی ڈی آر) ابھی تک نجیب کی والدہ فاطمہ کو نہیں دئیے ہیں جس سے سوال کھڑے ہو رہے ہیں۔ فاطمہ نے عدالت سے گہار لگائی تھی جس کے بعد انہیں کلوزر رپورٹ تو دے دی گئی ہے لیکن کال ڈیٹیل نہیں دی جا رہی ہے۔
کال ڈیٹیل ریکارڈ نہیں دئیے جانے پر جب عدالت نے سی بی آئی سے پوچھا کہ آپ نجیب کو کیا مانتے ہیں زندہ یا مردہ؟ اس کے جواب میں سی بی آئی نے اسے چھپا کر رکھے جانے کا اندیشہ جتایا ہے۔ اسی کو وجہ بناتے ہوئے کال ریکارڈ نہیں دئیے جانے کو صحیح ٹھہرانے کی کوشش بھی کی ہے۔
تاہم، فاطمہ کے وکیل نے سی بی آئی کی اس دلیل کی مخالفت کی ہے۔ وہیں، اس پر بحث کرنے کی مانگ کی ہے۔ اس کیس کی علیحدہ سماعت 28 جون کو ہونی ہے۔ سی بی آئی نے سی ڈی آر نہ دینے کے الزام پر دلیل دی ہے کہ کیونکہ سی ڈی آر کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس لئے اسے کلوزر رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ جس کے مدنظر جب نفیس فاطمہ کو کلوزر رپورٹ دی گئی تو اس میں سی ڈی آر کی کاپی نہیں تھی۔
غور طلب ہے کہ نجیب سال 2016 سے جے این یو کے ہاسٹل سے لاپتہ ہے۔ فاطمہ کا الزام ہے کہ نجیب کے ساتھ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے لڑکوں نے مار پیٹ کی تھی۔ انہیں لوگوں نے نجیب کو غائب کیا ہے۔ وہیں، انہوں نے سی بی آئی کے اس بیان پر بھی اظہار حیرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرا بیٹا ڈھائی سال سے بھی زیادہ وقت سے غائب ہے۔ دلی پولیس، کرائم برانچ اور ایس آئی ٹی اس کی جانچ کر چکی ہیں۔ لیکن اس کے بعد بھی سی بی آئی کو لگ رہا ہے کہ وہ خود سے چلا گیا ہے۔