عدالتی فیصلوں پر ارون شوری کی تشویش‘ حیدرآباد میں ایک تقریب سے خطاب

جسٹس لویا کی موت کے متعلق آزادانہ تحقیقات کے مطالبے پر مشتمل درخواست کومسترد کرنا اور بناء تحقیق کے موت کوقدرتی قراردینا ‘ عدالتی اصولوں کے خلاف۔ ’’نیتا گیٹس بیل‘‘ پر تبصرے کے دوران سابق مرکزی وزیر ارون شوری خطاب
حیدرآباد۔سابق مرکزی وزیر اور بی جے پی لیڈر ارون شوری نے عدلیہ کے کام کرنے کے طریقہ کا ر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ ایک وقت جج کی حیثیت سے جس شخص قومی ترانہ پر چالیس صفحات پر مشتمل فیصلہ سنایاتھا وہی شخص آج چیف جسٹس آف انڈیا کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ مذکورہ فیصلے کے بعد حب الوطنی کا ثبوت پیش کرنے والوں نے سنیما گھروں میں قومی ترانہ کے احترام میں جسمانی طور سے معذورشخص کے کرسی پر اٹھ کر کھڑا نہ ہونے کی بناء پر اس کو ملک کا غدار قراردیتے ہوئے زدکوب کیا اور اس طرح کے کئے ایک واقعات اس فیصلے کے بعد بھی منظرعام پر ائے۔ وہ آج اپنی کتاب ’’ نیتا گیٹس بیل‘‘ پر منتھن کے زیراہتمام منعقدہ تبصرے سے خطاب کررہے تھے۔

مسٹر ارون شوری نے عدلیہ کے اندر جاری بحران کی دوسری ایک بڑی مثال جسٹس لویا کی موت پر عدالت کا فیصلہ ہے۔انہوں نے کہاکہ جن حالات میں عدالت نے جسٹس لویا کی موت پر اپنا فیصلہ سنایا ہے وہ قابل غور ہے۔

انہوں نے کہاکہ ایک طرف ممبئی ہائی کورٹ کے وکلا ء کی جانب سے جسٹس لویا کی موت پر آزادنہ تحقیقات کے مطالبے پر مشتمل ایک درخواست دائر کی جاتی ہے تو دوسری جانب اس وکلاء کی درخواست کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی جاتی ہے جس کے محرک پبلک پراسکیوٹر ہیں۔ مسٹر ارون شوری نے کہاکہ ضروری یہ ہے کہ جسٹس لویا کی موت جن حالات میں پیش ائے اس کا ہم جائزہ لیں۔

انہوں نے کہاکہ جسٹس لویاسی بی ائی کے فرض شناس جج تھے اور وہ سہراب الدین انکاونٹر کیس کی سنوائی پر مامور کئے گئے ۔ مسٹر ارون شوری نے کہاکہ ہزاروں صفحات پر مشتمل چارچ شیٹ کا مطالعہ کرنے کے لئے انہیں وقت چاہئے تھا لہذا انہوں نے نے کیس کے اہم ملزم موجودہ بی جے پی کے صدر امیت شاہ کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔

مسٹر ارون شوری نے سہراب الدین انکاونٹر کے متعلق ممبئی کی خصوصی سی بی ائی عدالت میں اس وقت چل رہے کیس کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہاکہ امیت شاہ کے وکیل نے استفسار پیش کیاکہ وہ امیت شاہ کی حاضری پر روک لگائیں مگر ایسا نہیں ہوا اور اگلے سنوائی میں امیت شاہ کی موجود رہنے کا حکم دیتے ہوئے جسٹس لویا نے عدالت کی کاروائی ملتوی کردی۔

مسٹر ارون شوری بتایاکہ سنوائی سے قبل جسٹس لویا اور ان کے کچھ ساتھی وکیل دوسرے ساتھی جج کی بیٹی کی شادی میں ناگپور گئے جہاں پر جسٹس لویاکی موت کا واقعہ پیش آیا۔ مسٹر ارون شوری نے کہاکہ اس کے بعد سی بی ائی ممبئی کی خصوصی عدالت میں ایک دوسرے جج کا تقرر عمل میں آیاجس نے سہراب الدین انکاونٹر کیس میں امیت شاہ سمیت دیگر ملزمین کوباعز ت بری کردیا۔

انہوں نے کہاکہ ان تمام حالات کے پیش نظر سپریم کورٹ کی دستوری بنچ کو جسٹس لویا کے موت کے متعلق اٹھائے جانے والے سوالات پر اعتراضات کو قبول کرنا چاہئے تھا مگر ایسا نہیں ہوا ‘ اور عدالت نے جسٹس لویا کی موت پر آزادنہ تحقیقات کرانے کے مطالبات پر مشتمل تمام درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے عدالت کے وقات کو مجروح کیاہے۔

مسٹر ارون شوری نے کہاکہ سہراب الدین انکاونٹر کیس متوفی کے بھائی رباب الدین کی طرف سے عدالت میں پیروی کرنے والے وکیل ہی جسٹس لویا کی آزادنہ تحقیقات کے مطالبہ کی مخالفت میں عدالت میں پیش کردہ درخواست کی نمائندگی کرنے کے لئے پیش ہوئے۔

انہوں نے اس طرح کے مقدمات میں اعلی عدالتوں او رعدالت عظمیٰ کے خود کو تسلیم کروانے کے اصول کے مغائر قراردیا۔ انہوں نے کہاکہ ملک کے ہائی پروفائیل تمام مقدمات میںیہ بات عام ہے کہ کیس کہ چشم دیدگواہ یا تو اپنی بیان سے مکر جاتی ہیںیا پھر ماضی میں دئے گئے بیان کو سیاسی یا انتظامیہ دباؤ کا نتیجہ قراردیتے ہیں۔مسٹر ارون شوری نے یہاں پر ایسے کئی مقدمات کی مثالیں بھی پیش کی جس میں جئے للیتا ‘ کمارا سوامی کے کیس بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ملک کے عدالتی نظام میں گواہوں کا اپنا بیان سے منحرف ہوجانا ایک عام بن ہوگئی ہے۔مسٹر ارون شوری نے ملک بھر کی عدالت میں گاؤ رکشہ اور لوجہاد کے نام پر چل رہے مقدمات کی بھی تفصیلات پیش کی۔ انہوں نے کہاکہ عین الیکشن سے قبل یا تو گاؤ رکشہ کے نام پر وبال کھڑا کیاجاتا ہے یا پھر لوجہاد کو موضوع بحث لا کر نفرتیں پھیلانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

انہو ں نے کہاکہ اگر یہ لوگ گائے کو قابل احترام مانتے ہیں تو پھر آخر کیاوجہہ ہے انتخابات کے بعد گائے کو فراموش کردیاجاتا ہے اور پھر کیوں حکومت کی نگرانی میں چلائے جانے والے گاؤ شالوں میں ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں گائے مررہی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ کئی رپورٹس منظر عام پر ائی ہیں اور عدالتوں میں بھی پیش کی گئی جس میں راجستھان کے بشمول کئی ریاستوں میں حکومت کی نگرانی میں چلائے جارہے گاؤ شالہ کے اندر ہر روز سینکڑوں کی تعدادمیں گائے مررہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ گاؤ ذبیحہ پر امتناع کے بعد راجستھان میں عمر رسیدہ گائیوں کو لوگ سڑکوں پر چھوڑنے کے لئے مجبور ہیں کیونکہ وہ نہ تو گائے فروخت کرسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ان گائیو ں کو خریدسکتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہجومی تشدد کے واقعات میں ملوث ملزمین اور ان مقدمات کے گواہ آسانی کے ساتھ اپنا بیان بدل دیتے ہیں ۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ امریکہ او ریوروپ میں گواہ اگر بیان بدلتا ہے تو اس کو سز ا دی جاتی ہے مگر ہمارے ملک میں اب تک یہ قانون نافذ نہیں کیاگیا ۔

انہوں نے کہاکہ یہی وجہہ گواہوں کو یا تو خرید لیاجاتا ہے یا پھر سیاسی دباؤ کے ذریعہ ان کو اپنے ماضی کے بیان سے انحراف کے لئے مجبور کیاجاتا ہے ۔مسٹر ارون شوری نے کردار سازی پر مشتمل سوشیل میڈیامہم کے متعلق میڈیارپورٹس پر بھی سوال کھڑا کئے ۔

انہوں نے اس موقع پر کئی ایک میڈیاہاوز کاتذکرہ کیاجن کے متعلق رپورٹ ہے کہ وہ پیسوں کے عوض ملک کے اہم سیاسی ومذہبی قائدین کی کردار سازی کرتے ہوئے سماج میں نفرت پھیلانے کاکام کررہے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی کے کٹر مخالف مانے جانے والے بی جے پی لیڈر ارون شوری نے کہاکہ ’’نیتاگیٹس بیل‘ ‘ لکھنا کا میرا مقصد عدالتوں کے ستر ایسے فیصلے جو نہایت بے تکی اور بے بنیاد ہیں ان کواجاگر کرتے ہوئے عوام کے سامنے لانا ہے۔

واضح رہے کہ ارون شوری اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں کمیونکیشن ‘ انفارمیشن او رٹکنالوجی کے وزیر تھے اور اب وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امیت شاہ کے کٹر مخالفین میں ان کاشمار ہے۔