نئی دہلی: ملک کی آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے او راپنے خون کا نذرانہ دینے والوں میں مسلمان بھی شامل تھے۔ مسلمان اس ملک کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل سمجھے جاتے ہیں۔ مسلمان چاہے تو کسی کو تخت پر بیٹھا سکتے ہیں اور اگر چاہے تو کسی کو گمنامی کی اندھیرے میں ڈھکیل سکتے ہیں۔ مسلمان آج بھی اپنا فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ ملک بعض پارلیمانی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمان ستر فیصد رائے دہندے ہیں۔
1990ء میں سب سے زیادہ ارکان پارلیمان منتخب ہوئے تھے جن تعداد ۹۴/ تھی۔ ملک کے تقریباشہر جن میں بہار کے کشن گنج، مغربی بنگال کا جنگی پو ر، مالدہ جنوبی، مرشد آباد، کیرالا کا ملا پور پونال، آسام کا بار پیٹا، کریم گنج، ڈوبری او رتلنگانہ کا حیدآباد شامل ہیں۔ اور جموں کشمیر کا بارہ مولا، اننت ناگ میں 95تا 100 فیصد مسلمانو ں کی آبادی ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعتیں جن میں کانگریس، سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج وادی پارٹی، عام آدمی پارٹی، ٹی ایم سی، ٹی آر ایس، آر جے ڈی، جنتا دل او رایم آئی ایم جیسی قومی و صوبائی جماعتیں ہیں۔ مسلم رائے دہندگان کاووٹ جب اتنی سیاسی پارٹیوں میں بٹتا ہے تو یو یہی ان کے فیصلہ کن طاقت کو تباہ کرنے بن جاتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو ملک میں ہی مسلمان رائے دہندگان فیصلہ کن حالت میں ہیں مگر افسوس ناک پہلو یہی ہے کہ تقسیم کی سیاست کا شکار ہونے کے بعد ان کا ووٹ کسی کو کامیاب تو نہیں بلکہ کسی کو شکست میں بڑارول ادا کرسکتا ہے۔