طلا ق سے متعلق حالیہ قانون اور ملت اسلامیہ کے لئے لائح عمل۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

طلاق کی نوبت ہی نہ ائے اس کے لئے صلح کی اہمیت ’ فیصلہ‘ سے بڑھ کر ہے ‘فیصلہ کرنے والا جج‘ قاضی یا ثالث قانون کاپابند ہوتا ہے جبکہ صلح میں’ لواور دو‘ کا فارمولہ ہوتا ہے ۔ فیصلے کے ذریعہ نزاع طئے ہوجاتی ہے ‘ لیکن دلوں کے فاصلے نہیں سمٹتے صلح کے ذریعہ دوریاں اورتلخیاں ختم ہوجاتی ہیں اسی لئے قرآن نے صلح کو بہتر عمل قراردیا ہے۔
حکومت نے مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ کے پر فریب نام سے جو قانون بنایا ہے یہ توقع کے عین مطابق ہے ‘ بی جے پی نفرت کے جس ایجنڈے کو اپنے اقتدار کے ذریعہ اپنائے ہوئے ہے یہ اسی کا ایک حصہ ہے اور ظاہر ہے پوری ملت اسلامیہ ہند کے لئے یہ نہایت افسوس ناک اور صدمہ انگیز واقعہ ہے۔ ڈسمبر6سال1992کو بابری مسجد شہید کی گئی اور شریعت اسلامی کی جو عمارت اس ملک میں ہمارے بزرگوں نے تعمیر کی تھی 28ڈسمبر2017کو اس کا ایک حصہ منہدم کردیا گیا۔

مسلمان اس وقت بھی بابری مسجد کی شہادت کو بے بسی کے ساتھ دیکھتے رہے اور اس تازہ حادثہ پر بھی ان کے سامنے بے کسی وبے چارگی کے ساتھ دیکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ آپ جس طبقے کے لئے قانون بنائیں اس سے کوئی مشورہ نہ کریں اور اتنے اہم قانون کو ایسی جلد بازی کے ساتھ پاس کردیں کہ اسی دن پارلیمنٹ میں بل پیشہو‘ اسی دن بحث ہو اور اسی دن صوتی ووٹ سے پاس کردیاجائے ۔

ان حالات میں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ قانون شریعت سے متعلق مسلمانوں کا لائحہ عمل کیاہو؟اس سلسلہ میں چند نکات قابل توجہ ہیں(۱)طلاق بہرحال ایک ناپسندیدہ عمل ہے‘ بالخصوص بیک وقت تین طلاق دینا گناہ اور ناجائز ہے‘ فقہہ اس پر متفق ہیں اور کیو ں نہ ہوں کہ رسول اللہ ؐکو اس عمل پر اتنا غصب ناک دیکھا گیا کہ کم ہی کسی دوسرے عمل پر اس درجہ غصہ آیا کرتا ۔

اس لئے اگر مسلم سماج میں تین طلاق کا ایک واقعہ بھی پیش آیا تو یہ قابل نفرت ہے اور کسی مناسب وجہہ کے بغیر طلاق کے چند واقعات بھی پیش ائیں تو یہ قابل نفرت ہے اور کسی مناسب وجہ کے بغیر طلاق کے چند واقعات بھی پیش ائیں تو یہ قابل اصلاح ہیں اس لئے ہمیں لوگوں میں طلاق کی شاعت کے بارے میں شعور بیدار کرنا چاہئے اور اس بات کا بھی کہ اگر غور وفکر کے بعد طلاق لینے یادینے کا فیصلہ کررہی لیاگیا تو طلاق صحیح طریقہ پر دیاجائے۔

(۲)میاں بیوی کے اختلافات کوحل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ کونسلنگ سنٹر قائم کئے جائیں‘ جس میں ایک عالم یاضروری حد تک احکام شری سے واقف شخص ۔ ایک ماہر نفسیات یاجھگڑوں کو حل کرنے کی مہارت رکپنے والا او رسماج کا ایک بارسوخ فرد شامل ہو۔ یہ اختلافات کو دور کرنے ‘ فاصلوں کوپالنے اور صلح کرانے کاکام کریں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’ صلح بہرحال بہتر ہے۔ او رمسلمانوں کو حکم دیا گیاکہ ’’ مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان نزاع پیدا ہوجائے تو صلح کرادیاکرو‘‘۔

ایسے سنٹرہر گاؤں اور قصبہ میں قائم کئے جائیں۔ شہر میں اس کی وسعت کے اعتبارسے کئی سینٹر ہوں او ران کی خوب تشہیر ہوتاکہ ہرشخص اس سہولیت سے واقف ہوا‘ ایسے سنٹر مسجدوں ‘ مدرسوں اور مذہبی تنظیموں کے زیرنگرانی قائم کئے جاسکتے ہیں۔صلح کی اہمیت ’’ فیصلہ‘‘ سے بڑھ کر ہے فیصلہ کرنے والا جج ‘ قاضی یا ثالث قانون کا پابند ہوتا ہے اور قانون میں عموماً لچک نہیں ہوتی ‘ اس کے برخلاف صلح میں ’’ لو اوردو‘‘ پر معاملات طئے کرائے جاسکتے ہیں۔ فیصلہ کے ذریعہ نزاع ملے ہوجاتی ہے لیکن دلوں کے فاصلے سمٹ نہیں پاتے‘ صلح کے ذریعہ دوریا ں اور تلخیاں ختم ہوجاتی ہیں ‘ اس لئے قرآن نے صلح کو بہتر عمل قراردیاہے۔

صلح میں کوئی بھی ایسا فارمولہ اختیار کیاجاسکتا ہے جس کی بناء پر حرام کا ارتکاب کرنے کی نوبت نہ ائی ہو۔(۳) ہم شریعت کے دوسرے مسائل اپنے بچے اور بچیوں کو پڑھاتے ہیں‘ نماز ‘ روزہ کے احکام بتاتے ہیں ۔ زکوۃ کی ادائیگی او رحج کرنے کے طریقے سکھاتے ہیں‘ لیکن کبھی ان کی شادی شدہ زندگی میں پیش انے والے مسائل کے بارے میں نہیں بتاتے ‘ شوہر بیوی کے حقوق اور کیاذمہ داریاں ہیں؟ اس پر بھولے بھٹکے بھی گفتگو نہیں کی جاتی اصل میں تو یہ ذمہ داری والدین اور سرپرستوں کی ہے لیکن آج کل والدین میں نہ تو اتنا شعور ہوتا ہے او رنہ زیادہ سے زیادہ کمانے دھن انہیں اس با ت کی فرصت دیتی ہے ۔ والدین کے بعد اساتذہ سے اس کی توقع رکھی جاسکتی تھی۔

لیکن اب تعلیم سے اخلاقیات کااخراج کردیاگیا ہے ۔ اساتذہ ایک پیشہ کی حیثیت سے پڑھاتے ہیں۔ ان کو اپنے شاگردوں کی ہمہ جہت اصلاح کی کوئی فکر نہیں ہوتی بلکہ آج کل ایک بڑی تعداد ایسے اساتذہ کی ہوتی ہے کہ خود ان کا اخلاقی معیار بہت پست ہوتا ہے اور وہ دین وشریعت کی باتیں سمجھانے کے اہل ہی نہیں ہوتے۔ان حالات میں یہ ذمہ دار ی مساجد او رمذہبی تنظیمو ں کو انجام دینی چاہئے(۴)علماء خطباء طلاق کے واقعات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آج کل اکثر مسجدوں میں جمعہ سے پہلے بیان ہوتا ہے ‘ دینی مدارس کے عظیم الشان جلسہ منعقد کئے جاتے ہیں‘ مختلف مہینوں میں مختلف عنوانات سے پروگرام ہوتے رہتے ہیں مگر ان جلسوں میں زیادہ تر جوباتیں ہوتی ہیں وہ کتابوں میں پڑھی ہوئی یا سابقہ مواعظ میں سنی ہوئی ہوتی ہیں ‘ اس لئے کوشش یہ ہونی چاہئے ک ہاسلام کی تعلیمات کو زندگی کے ہرگوشے میں برتنے کے سلسلے میں مسلم عوام کو بیدار کیا جائے ۔ ہم میں سے کچھ لوگ توتقریر کی اعلی صلاحیت اور نعمت کو تعمیرواتحاد کے بجائے امت میں اختلاف کا ذریعہ بنالیتے ہیں

۔(۵) بہت توجہ کے ساتھ ایک اور مہم بناکر مسلمانوں کوترغیب دینے کی ضرورتہے کہ وہ شریعت سے مربوط معاملات انے درالقضاء شرعی پنچایت ‘ ائمہ اور ارباب افتاء کے ذریعہ حل کرائیں اور وہ جو بھی فیصلہ کریں ان کو قبول کریں اس لئے قران مجید نے اس بات کو شرط ایمان قراردیا ہے کہ اللہ کے حکم کے سامنے سر جھکادیاجائے اور دل کی آمادگی کے ساتھ اسے قبول کیاجائے۔اس وقت سرکاری عدالتوں پر مقدمات کا اتنا بوجھ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ایک سابق چیف جسٹس صاحب کا بیان آیاتھا کہ ہائی کورٹ میں جو مقدمات زیرالتواء ہیں ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر موجودہ رفتار میں فیصل ہوں تو ایک سوساٹھ سال کا عرصہ درکا ر ہے‘ اگر ہم اپنے شرعی معاملات کو اپنے ہی سماج کے اندر طئے کرلیں تو فیصلہ کے طویل انتظار سے بھی بچیں گے اورکثیراخراجات سے بھی ‘ نیز یہ سرکاری عدالتوں کا بھی تعاون ہوگا او ران پر مقدمات کا جوبھاری بھرکم بوجھ ہے ان کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ عدالتوں کی موجودہ صورت حال اورشرعی مسائل میں ان کے فیصلوں کے انداز کوسامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے اس کے سوا کچھ راستہ نہیں ہے۔