مسلم پرسنل لاء(شریعت) ایپلیکشن ایکٹ1937کے تحت درالقضاء کے مرکز عام طور پر اس قسم کے معاملے کو طئے کرتے ہیں
لکھنو۔بورڈ کے سینئر رکن ظفر یاب جیلانی نے اتوار کے روز بتایا کہ کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ ملک کے ہر ضلع میں دارلقضا کے دفاتر قائم کریگا ۔
مسلم پرسنل لاء(شریعت) ایپلیکشن ایکٹ1937کے تحت درالقضاء کے مرکز عام طور پر اس قسم کے معاملے کو طئے کرتے ہیں۔
انفرادی طور پر ان مرکز سے رجوع ہوکر ازدواجی‘ سماجی اور خاندانی تنازعات کا لوگ حل تلاش کرتے ہیں۔ قرآن اور احادیث نبوی کے احکامات کے شرعی قانون کام کرتا ہے۔جیلانی نے کہاکہ’’ مذکورہ مراکز پر جوڑوں کو طلاق ثلاثہ کی لعنت سے بچنے کے معلوما ت فراہم کئے جائیں جو اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی خراب عمل ہے اور ملک کے قانون نے بھی اس پر امتناع عائد کردیا ہے‘‘۔
کئی شہروں جیسے لکھنو‘ گوہاٹی‘ پٹنہ اور حیدرآبا د میں اس طرح کے مراکز پہلے سے کام کررہے ہیں جہاں پر شرعی قوانین کے مطابق مشورہ اور کونسلنگ کی جاتی ہے۔
جیلانی نے کہاکہ سپریم کورٹ کے ماضی کے فیصلوں کے مطابق یہ مرکز قانونی طور پر جائز ہیں اور اس کو علیحدہ قانونی نظام نہیں سمجھا جائے گاجو راست جمہوریت کے لئے خطرہ بن سکتے ہوں۔
جیلانی کے مطابق 2010میں وشوا مدن لوچان نے کی درخواست کو مسترد کردیاتھا جس میں انہوں نے ان مرکز کو عدلیہ سے راست ٹکراؤ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ ’’ ہم نے عدالت کو درالقضاء کے نظام کے متعلق سمجھایا۔
عدالت نے حکم دیا کہ یہ عدالتیں نہیں ہیں‘‘۔اس کیس میں مسلم پرسنل لا ء بورڈ کے ساتھ درالعلوم یوبند بھی عدالت میں پارٹی ہے۔ملک بھر میں درالقضاء کے پچاس مراکز مختلف ریاستوں میں کارگرد ہیں۔