گرمائی تعطیلات میں سپریم کورٹ کی دستوری بنچ سماعت کرے گی
نئی دہلی 30 مارچ ( سیاست ڈاٹ کام ) سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ ‘ نکاح حلالہ اور کثرت ازدواج کی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت کے آغاز کیلئے 11 مئی کی تاریخ مقرر کی ہے ۔ چیف جسٹس جے ایس کیہر اور جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ پر مشتمل ایک بنچ نے کہا کہ اس مسئلہ پر گرمائی تعطیلات کے دوران ایک دستوری بنچ سماعت کریگی ۔ 27 مارچ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ مسلمانوں میں اسطرح کے مسائل کو چیلنج کرنے والی کی درخواستوں پر سماعت نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ مسائل عدالیہ کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ بورڈ نے مزید کہا تھا کہ محمڈن لا کو دستور کے کسی مخصوص دفعہ کی کسوٹی پر پرکھا نہیں جاسکتا ۔ محمڈن لا قرآن اور اس کی تعلیمات کی بنیاد پر طئے پایا ہے ۔ پرسنل لا بورڈ نے کہا تھا کہ ان مسائل کے دستوری حیثیت سے جائزہ لینے سے قبل عدلیہ کے صبر و تحمل کی ضرورت ہے ۔ اس وقت تک ایسا کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے جب تک ایسا کرنا ناگزیر نہ ہوجائے ۔ سپریم کورٹ نے قبل ازیں کہا تھا کہ وہ مسلمانوں میں طلاق ثلاثہ ‘ نکاح حلالہ اور کثرت ازدواج کے عمل کی قانونی حیثیت کا جائزہ لیگا اور اس سوال پر کوئی غور نہیں ہوگا کہ آیا مسلم قانون کے تحت طلاق کو عدالتوں کی منظوریملنی چاہئے یا نہیں کیونکہ یہ قانونی دائرہ کار میں آتا ہے ۔ مرکز نے گذشتہ سال 7 اکٹوبر کو مسلمانوں میں سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ ‘ نکاح حالالہ اور کثرت ازدواج کے عمل کی مخالفت کی تھی اور جنسی مساوات اور سکیولرازم کی بنیادوں پر ان پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا ۔ وزارت قانون نے اپنے حلفنامہ میں جنسی مساوات ‘ سکیولرازم ‘ بین الاقوامی قوانین ‘ مذہبی عمل اور مختلف اسلامی ممالک میں پائے جانے والی شادیوں سے متعلق قوانین کا حوالہ دیا تھا اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ طلاق اور کثرت ازدواج کے مسائل پر سپریم کورٹ کو از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس سوال کا از خود نوٹ لیا تھا کہ آیا مسلم خواتین کے ساتھ طلاق کی صورت میں یا پھر ان کے شوہروں کی دوسری شادیوں کی صورت میں امتیازی سلوک تو نہیں ہوتا ہے ۔
اب سپریم کورٹ نے اس حساس مسئلہ پر سماعت کی شروعات کیلئے 11 مئی کی تاریخ کا تعین کیا ہے اور کہا کہ سپریم کورٹ کی ایک پانچ رکنی دستوری بنچ گرمائی تعطیلات میں اس مسئلہ کی سماعت کرے گی ۔ بارسوخ مسلم تنظیموں جیسے کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ نے عدات کے ان معاملات پر سماعت کے دائرہ کار کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہیکہ یہ تمام عمل قرآن مجید کے احکام کی بنیاد پر ہیں اورانہیں کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم خواتین کی کئی تنظیموں نے طلاق ثلاثہ کو چیلنج کیا ہے جس میں ایک ہی نشست میں تین بار طلاق دینا بعض اوقات ٹیلیفون پر یا ٹیکس پیغام کے ذریعہ طلاق دینا بھی شامل ہیں۔ اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے تین دستوری بنچوں کو تعطیلات کے دوران قیام کے بارے میں اپنے ذہنی تحفظات ظاہر کئے۔ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس کیہر نے اٹارنی جنرل کے ادعا پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ’’تعطیلات کے دوران‘‘ سماعت نہ کی جائیں تو بعدازاں ہم پر الزام عائد نہ کریں۔ گذشتہ مرتبہ فیصلہ تحریر کرنے کا عمل تعطیلات کے دوران روک دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کیلئے ہمیں باہمی اشتراک کے ذریعہ کام کرنا ہوگا۔ اگر آپ ہمارے ساتھ تعاون کرنا نہ چاہتے ہوں اور تعطیلات سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہوں تو بعد میں یہ مت کہئے کہ اتنے سال گذر گئے لیکن مقدمہ کی سماعت نہ ہوئی۔ اگر ہم 11 مئی سے سماعت کا آغاز کریں تو 12 مئی کو بھی ہمیں سماعت کرنی ہوگی حالانکہ اس دن جمعہ ہے۔ اگر آپ 13 مئی تک سماعت کا التوا چاہتے ہیں تو 13 اور 14 مئی کو دوبارہ تعطیلات ہوں گی۔ اس کے بعد ہی ہمیں مقدمہ کی سماعت کیلئے پورا ایک ہفتہ دستیاب ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے قبل ازیں کہا تھا کہ وہ طلاق ثلاثہ، نکاح حلالہ اور کثرت ازدواج کے صرف قانونی پہلوؤں کا فیصلہ کرے گی۔
یکساں سیول کوڈ کیلئے قانون سازی
سپریم کورٹ میں درخواست پیش
نئی دہلی ۔ 30 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ میں آج ایک درخواست پیش کی گئی جس میں ملک گیر سطح پر افراد کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے یکساں سیول کوڈ کی قانون سازی کیلئے مرکزی حکومت کو ہدایت دینے کی گذارش کی گئی ہے۔ یہ درخواست قانون داں فرح فیض نے داخل کی ہے جو طلاق ثلاثہ مقدمہ کے فریقین میں سے ایک ہے۔