َلکھنؤ : طلاق ثلاثہ معاملہ میں اپنی کابینہ میں آرڈیننس منظور کرواکر حکومت ایک بار پھر اس مسئلہ کو ہوا دے رہی ہے ۔ او رمسلم علماء کرام پر شدید رد عمل اظہار کررہے ہیں ۔ اور اس عمل کو شریعت میں مداخلت بتا رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی حکومت اس مسئلہ پر اتنی عجلت کیو ں دکھا رہی ہے جب کہ ملک کے سامنے اس سے کہیں زیادہ بڑے بڑے مسائل درپیش ہیں ۔ علماء کرام کا کہنا ہے کہ عدالت عظمی کہہ چکی ہے کہ آرڈیننس کا راستہ آئین کے ساتھ فریب دہی کے مترادف ہے او روہ اس کی قطعی اجازت دے سکتی پھر بھی حکومت اس کے موقف کی خلاف ورزی کرنے پر کیوں آمادہ ہے ۔اس سلسلہ میں مفتی ابوالعرفان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس حکومت کو آئین کی فکر ہے نہ عدلیہ کے وقار کی ۔
پھر یہ ہماری شریعت کی بھلا کیا پا س ولحاظ رکھیں گی ۔ انہوں نے آرڈیننس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی مسلمانوں کوبلی کا بکرہ بنائے جانے کی ایک مثال ہے او ریہ سب ۲۰۱۹ء کے پیش نظر کیا جارہا ہے ۔راشٹر علماء کونسل کے سربراہ مولانا عامر رشادی نے بتایا کہ اس آرڈیننس کا مقصد پولرائیزیشن ہے مسلم خواتین کے حقوق کی پامالی کو روکنا بالکل نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کوآئین پر یقین ہی نہیں توسپریم کورٹ کا کیا ڈر ۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانو ں کو اس پرزیادہ رد عمل ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ۔ہم اپنی زندگی شریعت کے مطابق ڈھال لیں تو یہ آرڈیننس اپنے آپ مرجائے گا ۔
مولانا خالد رشید فرنگی حکومت کے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہمار ے مسائل کو سیاسی چشمہ لگا کر دیکھ رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ آرڈیننس ہماری شریعت میں کھلی مداخلت ہے ۔مولانا خالد محلی نے کہا کہ جب سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کو ہی ختم کردیا ہے تو پھر کس بات کی سزا کاالتزام کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں اب مسلم پرسنل لاء بورڈ کو لائحہ عمل کرنا چاہئے ۔
مولانا سید فضل منان کا کہنا ہے کہ اس اقدام کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کا یہ اقدام آئین ، دستور اور عدالت عظمیٰ سبھی کی توہین کے مترادف ہے ۔