سلمان خورشید ناراض ، ترنمول کانگریس خاموش، اپوزیشن مخالفت میں متحد، ’’تاریخی دن‘‘ :مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد
نئی دہلی۔28 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) لوک سبھا میں آج مسلم خواتین (تحفظ ازدواجی حقوق ) بل کو اپوزیشن ارکان کے تجویز کردہ کئی ترمیمات کو مسترد کرنے کے بعد ندائی ووٹ سے منظور کردیا ۔ قبل ازیں ایک نشست میں طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دینے والا مسودہ قانون کئی سیاسی پارٹیوں کے احتجاج کے دوران آج لوک سبھا میں متعارف کروایا گیا۔ مسلم خواتین (تحفظ ازدواجی حقوق) مسودہ قانون منظور کرنے اور اس پر غور کے لیے آج ہی بعدازاں پیش کیا جائے گا۔ مسودہ قانون پیش کرتے ہوئے مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہا کہ آج کا دن ایک ’’تاریخی دن‘‘ ہے۔ لیکن قانونس ازی کے لیے مسودہ پیش کرنے سے پہلے کئی اپوزیشن پارٹیوں نے اس کے متعارف کرنے کی مخالفت کی اور کہا کہ نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک جانبدار اور پرعیب تجویز ہے۔ آر جے ڈی، بی جے ڈی، انڈین یونین ، مسلم لیگ، انا ڈی ایم کے اور اے آئی ایم آئی ایم کے ارکان نے نے جنہوں نے اسی مسودہ قانون کو متعارف کروانے کے بارے میں نوٹس دی تھی، اس کی مخالفت میں تقریریں کیں۔ لیکن کانگریس اور بائیں بازو کے ارکان نے بھی اپنی نشستوں سے اس مسودہ قانون کی مخالفت کی تاہم انہیں تقریروں کی اجازت نہیں دی گئی کیوں کہ انہوں نے نوٹس نہیں دی تھی۔ سماج وادی پارٹی قائدین ملائم سنگھ یادو بھی اسی مسودۂ قانون کی مخالفت کرتے دیکھے گئے۔ ترنمول کانگریس جو قبل ازیں اسی مسودۂ قانون کی مخالفت کرچکی ہے، خاموش تھی۔آر جے ڈی کے جے پی این یادو نے مجوزہ تین سال کی سزائے قید پر اعتراض کیا ۔ مجلس کے اسد الدین اویسی نے کہا کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے اختیارات کا فقدان ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ مسودہ قانون ، قانون میں تبدیل نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسودہ قانون صرف مسلم خواتین سے ترک تعلق کی بات کرتا ہے لیکن حکومت کو ان 20 لاکھ خواتین کی بھی فکر کرنا چاہئیے جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کو ان کے شوہروں نے طلاق دیدی ہے ان میں ہماری گجرات کی ’’بھابھی‘‘ بھی شامل ہے ۔ مسلم لیگ کے ای ٹی محمد بشیر نے کہا کہ مجوزہ قانون پرسنل لاز کی خلاف ورزی ہے اور سیاسی مفادات کی بنیاد پر کیا ہوا اقدام ہے ۔ بی جے ڈی کے بی مہتاب نے کہا کہ وہ اس مسودہ قانون کی خوبیوں اور خامیوں کی بات نہیں کریں گے ۔ اس کی تدوین ناقص اور پُرعیب ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر مجوزہ قانون ایک نشست میں طلاق ثلاثہ کو غیرقانونی اور کالعدم قرار دیتا ہے تو پھر کسی شخص کو سزائے قید کیسے دی جاسکتی ہے جبکہ وہ ’’طلاق بدعت‘‘ دیتا ہے ۔ انا ڈی ایم کے کے اے انور راجہ نے مسودہ قانون کی مخالفت کی ۔ مسودہ قانون متعارف کروانے کے کچھ ہی دیر بعد منظور کردیا گیا ۔ پرساد نے حیرت ظاہر کی کہ پارلیمنٹ کیسے خاموش رہی ۔ اگر ایک خاتون کے بنیادی حقوق کو کچلا جارہا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ قانون سازی کا مقصد کسی مذہب کے خلاف نہیں تھا بلکہ اس کی تدوین انصاف ، صیانت اور خواتین کو وقار کا احساس دلانے کیلئے تھی ۔ انہوں نے کہا کہ قانون سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی ضروری تھا جس نے اگست میں ’’طلاق بدعت‘‘ کے رواج کو بند کردینے کا حکم دیا تھا لیکن پھر بھی یہ رواج جاری ہے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حال ہی میں جیسے آج بھی رامپور کی ایک خاتون کو ایک ہی نشست میں اس کے شوہر نے طلاق ثلاثہ دیدی کیونکہ وہ دیر سے جاگ رہی تھی ۔ پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنا چاہئیے کہ طلاق ثلاثہ بنیادی حقوق کو متاثر کرتی ہے یا نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بعض اپوزیشن ارکان دعویٰ کررہے ہیں کہ اس سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے جن کی ضمانت دستور میں دی گئی ہے ۔ پرساد نے کہا کہ آج کا دن تاریخی دن ہے ۔ ہم آج نئی تاریخ لکھ رہے ہیں ۔ مجوزہ قانون نہ صرف ایک نشست میں طلاق ثلاثہ یا طلاق بدعت پر نافذ ہوگا بلکہ یہ متاثرہ کو اختیارات بھی عطا کرے گا کہ وہ مجسٹریٹ سے ربط پیدا کریں ، خود کے اور اپنے نابالغ بچوں کیلئے نان نفقہ طلب کریں ۔ خاتون نابالغ بچوں کو اپنی تحویل میں بھی رکھ سکتی ہیں اگر مجسٹریٹ جو اس مسئلہ کا قطعی فیصلہ کردے قانون کے تحت ایک ہی نشست میں طلاق ثلاثہ کسی بھی نوعیت میں چاہے زبانی ہو یا تحریری یا برقی ذریعہ سے جیسے ای میل ، ایس ایم ایس اور واٹس اپ ہیں ۔ غیرقانونی اور کالعدم تصور کی جائے گی ۔