مذہبی معاملے میں سیاست کرکے آر ایس ایس کے آلہ کار نہ بنیں مسلمان۔ مولانا توقیر رضاخان
نئی دہلی۔ طلاق ثلاثہ مخالف مجوزہ قانون کو لے کر مرکزی حکومت کی جانب سے لوک سبھا میں بل پاس کء جانے کی جہاں کچھ لوگ مخالفت کررہے ہیں وہیں وہیں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ حکومت کے اس قدم کا یہ کہہ کر ’ استقبال‘ کررہا ہے کہ ہم اسکی مخالفت کرکے آر ایس ایس کا آلہ کار نہیں بننا چاہتے۔
اس سلسلے میں خانوادہ اعلی حضرت کے اہم رکن واتحاد ملت کونسل کے بانی وصدر مولانا توقیر رضا خان بریلوی نے ’ صحافت سے خصوصی گفتگو میں کہاکہ طلاق ثلاثہ صرف اور صرف مذہبی معاملہ ہے ۔ اس لئے اس سلسلے میں جولوگ سیاست کررہے ہیں وہ براہ راست طور پر قوم کا نقصان کررہے ہیں۔
انہو ں نے کہاکہ طلاق ثلاثہ کے خلاف جو بل آیا ہے اس سے ہماری بہن بیٹیوں کو بہت راحت ملنے کی امید ہے اس لئے اس کی مخالفت کرنے کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں آپ آر ایس ایس کا آلہ کار بن رہے ہیں۔ حکومت کے رخ سے عدم اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے مولانا توقیر رضا نے کہاکہ بی جے پی نے یقیناًمسلمانوں کی دلآزاری کی نیت سے ہی یہ قدم اٹھایا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ طلاق ثلاثہ کے خلاف جو کام کرناچاہئے تھا اس میں ہمارے علماء مسلم پرسنل لاء بورڈ اور ہمارے قائدین پوری طرح ناکام رہے۔
مجوزہ قانون میں سزا کے التزام اتحاد وملت کونسل کے سربراہ نے کہاکہ اسلام میں1400سال سے طلاق ثلاثہ کے مجرم کو سزا دی جارہی ہے ۔ سب سے بڑی سزا یہی ہے کہ اس سلسلے میں حضورؐ نے سخت ناراضگی اور بیزاری کا اظہار فرمایا تھا اس لئے دنیا کا کوئی بی قانون یا عدالت اس سے بڑی سزا نہیں دے سکتی۔ انہو ں نے کہاکہ طلاق ثلاثہ برا سمجھا جتا ہے‘ گناہ ہے جرم ہے چونکہ شریعت سزا نہیں دے پارہی ہے اس لئے غیر ذمہ داری کے ساتھ اس قانون کا غلط استعمال کیاجارہا ہے۔
جب قانون بنے گا اور التزام ہوگا تو لو گ اس غیرذمہ داری سے بچیں گے۔ اس موقع پر مولانا توقیر نے ایک اہم سوال بھی کیاجس میں انہوں نے کہاکہ طلاق ثلاثہ کا مجرم تین سال( جیساکہ حکومت چاہتی ہے)کے لئے جیل چلاگیا‘مجرم کو توسزا مل گئی لیکن جس پر ظلم ہوا ہے اس کے لئے حکومت نے کوئی انتظام نہیں کیاہے۔ایسی صورت میں مظلوم جس کی طلاق ہے وہ اپنی زندگی کیسے بسر کرے گی‘ حکومت کو اسپر سنجدیگی سے غور کرنا چاہئے۔
طلاق ثلاثہ کے پورے عمل میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے معروف عالم دین نے کہاکہ لڑائی میں جب للہیت ہوتی تو بارہوہی نہیں سکتی لیکن اگر نیت میں فطور ہوگا‘ عزت وناموس کے لئے کام ہوگا تو اس میں کامیابی کا شائبہ نہیں کیاجاسکتا ۔ اس کیس کو جس طرح لڑانا چاہئے تھا اس طرح نہیں لڑاگیا۔