کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ کا بیان، مسلم خواتین تنظیموں کا جشن، مختلف تنظیموں، قائدین اور کارکنوں کا ملا جلا ردعمل
نئی دہلی۔ 28 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) بی جے پی نے آج لوک سبھا میں طلاق ثلاثہ قانون منظوری کی ستائش کی۔ یہ قانون ایک نشست میں طلاق ثلاثہ کو تعزیری جرم قرار دیتا ہے جبکہ کانگریس نے مطلقہ مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون کو زیادہ سخت بنانے کی ضرورت پر زور دیا اور انہیں کافی الاونس جاری کرنے کا مشورہ دیا۔ مسلم خواتین (تحفظ ازدواجی حقوق) بل متاثرہ خاتون کو کسی بھی مجسٹریٹ سے ربط پیدا کرنے کا اختیار دیتا ہے تاکہ اس کے اور اس کے نابالغ بچوں کیلئے نان و نفقہ کا مطالبہ کرے۔ مسلم خواتین نے اس قانون کی منظوری کا جشن منایا۔ انہوں نے کہا کہ اس کی دفعات ان کے لئے کوئی ایوارڈ نہیں ہے۔ جشن منانے والی خواتین نے کہا کہ انہیں مستقبل میں اس قانون کے منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔ کانگریس اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے بے نقاب ہوگئی۔ سی پی آئی ایم قائد برنداکرت نے حکومت پر اس بل کی پارلیمنٹ کے ذریعہ منظوری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مسلم خواتین اور ان کی تنظیموں سے کوئی مشاورت یا تبادلہ خیال نہیں کیا گیا۔ بی جے پی نے قانون سازی کو ’’تاریخی‘‘ قرار دیا۔ تاہم کانگریس نے کہا کہ مطلقہ مسلم خواتین کے حقوق اور وقار کے ساتھ زندگی گذارنے کیلئے انہیں کافی گذارا الاونس دیا جانا چاہئے۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے کہا کہ یہ قانون تاریخی ہے اور اس سے مسلم خواتین کے وقار کی زندگی یقینی بن جاتی ہے۔ پارلیمنٹ کے باہر مرکزی وزیرقانون روی شنکر پرساد نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ قانون صرف مذہب کے بارے میں نہیں بلکہ یہ خواتین سے انصاف اور ان کے وقار کا مسئلہ ہے۔ مرکزی وزیر اور بی جے پی قائد مختار عباس نقوی نے اس بل کی منظوری کو تاریخی اور نمایاں اقدام خواتین کی بااختیاری کی سمت قرار دیتے ہوئے وزیراعظم مودی اور وزیرقانون روی شنکر پرساد کو مبارکباد دی۔ ان کے ساتھ مہیش شرما نے کہا کہ یہ بل انسانیت کا احترام کرتا اور ہماری ماؤں اور بہنوں کو وقار عطا کرتا ہے۔ بل کی تائید کرتے ہوئے کانگریس نے کہا کہ پارلیمنٹ کو مسلم خواتین اور بچوں کے حقوق کا ہر حال میں تحفظ کرنا چاہئے۔
کانگریس کے شعبہ مواصلات کے انچارج رندیپ سرجے والا نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کا جس میں طلاق ثلاثہ پر امتناع عائد کیا گیا تھا، خیرمقدم کرنے والی ان کی پارٹی پہلی پارٹی تھی۔ کانگریس ہمیشہ ایک نشست میں طلاق ثلاثہ کو صنفی مساوات کے خلاف سمجھتی رہی ہے اور کسی بھی ایسے قانون کی تائید کرے گی جس کے ذریعہ طلاق ثلاثہ پر امتناع عائد ہوتا ہو۔ تاہم موجودہ بل کو خواتین کی باوقار زندگی کا تحفظ کرنا چاہئے اور انہیں کافی رقم بطور گذارا منظور کرنی چاہئے۔ سینئر کانگریس قائد سلمان خورشید نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے پرزورانداز میں کہا کہ مجوزہ قانون افراد کی نجی زندگی میں مداخلت ہے۔ تاہم انہوں نے کہاکہ کوئی فوجداری قانون اس سلسلہ میں دنیا کے کسی ملک میں بھی قابل قبول نہیں ہے۔ فوجداری قانون کو خاندانی زندگی سے باہر رکھا جانا چاہئے۔ سی پی آئی ایم قائد پرکاش کرت نے کہا کہ یہ بل انتہائی قابل اعتراض ہے اور بی جے پی کی اس کو کسی حساب کتاب اور مباحث کے بغیر پارلیمنٹ میں منظور کروانا مساوی طور پر قابل اعتراض ہے۔ اس کے قانون میں تبدیل ہونے سے پہلے اسے راجیہ سبھا سے منظور کروانا ضروری ہے۔ خواتین کے حقوق گروپ نے جو ایک نشست میں طلاق ثلاثہ کے خلاف ایک قانون کی ضرورت کی تحریک چلا رہا تھا، قانون کی لوک سبھا میں منظوری کو ’’تاریخی‘‘ قرار دیا جبکہ دیگر تنظیموں نے اسے ’’یوم الم‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی منظوری کو ’’صدمہ انگیز‘‘ قرار دیا۔
بھارتیہ مسلم مہیلا اندولن جو سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کے خلاف درخواست دینے والوں میں سے ایک ہے، کہاکہ لوک سبھاکی آج کی کارروائی سے نشاندہی ہوتی ہے کہ مسلم خواتین کی آوازوں کو سیاسی پارٹیاں بھی سن رہی ہیں۔ ذکیہ سمن معاون بانی بھارتیہ مسلم مہیلا اندولن نے کہا کہ مسلم خواتین کو قانونی تحفظ سے محدود رکھا گیا تھا جو ناقابل قبول ہے۔ سینئر ایڈوکیٹ اندرا جئے سنگھ نے تاہم کہا کہ اس بل کی منظوری سے انہیں صدمہ پہنچا ہے۔ خواتین کے ایک نمائندہ سادھنا آریہ نے کہا کہ قبل ازیں لو جہاد کے نام پر ہلاکتیں واقع ہوتی تھیں اب طلاق ثلاثہ کے نام پر ہورہی ہے۔ انہوں نے اس کی منظوری کو ایک غم انگیز لمحہ قرار دیا۔ شائستہ عنبر صدر مسلم خواتین پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ اگر یہ قانون قرآن اور دستورہند کے خلاف ہو تو مسلم برادری کیلئے ناقابل قبول ہے۔ لکھنؤ سے موصولہ اطلاع کے بموجب کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بل کی منظوری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی ترمیم اسے بہتر بنانے یا منسوخ کرنے کیلئے کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ جمہوری طریقہ اختیار کرے گا۔ مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے کہا کہ ہم ترمیم، بہتری یا تنسیخ کیلئے ہوں۔ جمہوری طریقے اختیار کریں گے۔ یہ قانون عاجلانہ بنیادوں پر بغیر کسی مشاورت یا تبادلہ خیال کے بغیر منظور کروایا گیا ہے۔ نئی دہلی سے موصولہ اطلاع کے بموجب مرکزی وزیر ایم جے اکبر نے کہا کہ طلاق ثلاثہ کو غیرقانونی قرار دینے کے بعد اس قانون کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ 9 کروڑ مسلم خواتین اس قانون کے تحت مستقل خوف سے نجات حاصل کرلیں گی جو طلاق کی شکل میں ان کے سروں منڈلارہا تھا۔ جے ڈی یو کے سابق صدر شرد یادو نے کہا کہ نریندر مودی حکومت اپنی مرضی دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ این سی پی نے اس قانون کو سیاسی فوائد پر مبنی قرار دیا۔