طلاق ثلاثہ بل کے خلاف علماء کا سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر اتفاق

جامعہ قادریہ اشرفیہ میں منعقدہ میٹنگ میں کہا۔ یہ بل عدالت عالیہ کی ہدایت اور دستور ہند کے صریح منافی ہے نیز یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا آغاز بھی ہے
مولانا شوکی علی روڈ۔شریعت مخالف طلاق ثلاثہ بل کے خلاف جامعہ قادریہ اشرفیہ( دوٹانکی) میں منگل کو علماء کی میٹنگ ہوئی جس میں ملی تنظیموں کے ذمہ داران بھی شرکت کی اور اس بل کو شریعت مخالف ‘ ائین مخالف او رمسلم دشمنی پر مبنی قراردیاگیا۔اس بات پر اتفاق کیاگیا کہ اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیاجائے گا۔ اسی سلسلے میں بدھ کی شام کو اسلام جمخانہ میں وکلاء اور قانونی ماہرین کی میٹنگ بلائی گئی ہے۔

اسی حوالہ سے خواتین کی پیر کی شب میں اسلام جمخانہ میں میٹنگ ہوئی جس میں اس بل کو غیر ائینی ‘ حقوق انسانی کی خلاف ورزی پر مبنی اور سپریم کورٹ کی ہدایات کے صریح منافی قراردیا گیا۔میٹنگ میں موجود آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا سید علی اطہر نے اس بل پر سوال قائم کرتے ہوئے کہاکہ ’’ طلاق ثلاثہ کو سپریم کورٹ نے تسلیم ہی نہیں کیاہے اور اسے طلاق بدعت کہاہے؟ تو سوال یہ ہے کہ اس پر سزا کیسی؟ اور پھر سزا یافتہ شوہر کے بچوں کی کفالت کون کرے گا؟‘‘انہوں نے یہ بھی کہاکہ ’’ مرکزی حکومت نے طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ زمرے میں شامل کیاہے ‘ یہ انتہائی غلط ہونے کے ساتھ شریعت مطہرہ میں کھلی مداخلت ہے‘‘۔

مولانا اطہر علی نے سکیولر جماعتوں کے طرز عمل پر سخت انداز میں کہاکہ ’’ پارلیمنٹ میں بل پیش کئے جانے کے وقت یہ جماعتیں کیاکررہی تھیں‘ خود کو سکیولر کہلانے والی کانگریس اور دیگر جماعتوں کے اراکین کیا کررہے تھے؟‘‘حکومت کی جانب سے دلیل دئے جانے اور وزیراعظم کے یہ کہنے پر کہ بہت سے اسلامی ممالک میں بھی تین طلاق پر پابندی لگادی گئی ہے ‘ مولانا سید اطہر علی نے کہاکہ ’’ ہم شریعت مطہرہ کے اصولوں کے مطابق عمل کرتے ہیں نہ کہ کسی مسلم ممالک کے نقش قدم پر چلتے ہیں‘‘۔

مولانا سید معین الدین اشرف عرف معین میاں نے کہاکہ’’ یہ بل نقائص کا پلندہ اور خالص مسلم دشمنی پر مبنی ہونے کے ساتھ ائین کی دھجیاں بکھیرنے والا ہے کیونکہ ائین نے ہر مذہب کے ماننے والے کو تحفظ فراہم کیاہے‘ اس کے تشخص کے ساتھ زندگی گزارنے کی ضمانت دی ہے۔ اس لئے اسے قطعاً برداشت نہیں کیاجاسکتا‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ’’ اس پر مسلسل احتجاج اور جمعہ کو عیدگاپ میدا ن میں بڑے پیمانے پر صدائے احتجاج بلند کرنے کے ساتھ سپریم کورٹ میں چیلنج کیاجائے گا‘‘۔رضا اکیڈیمی کے جنرل سکریٹری محمد سعید نوری نے کہاکہ’’ اتفاق رائے سے یہ طئے پایا ہے کہ چوکہ یہ شریعت مطہرہ میں مداخلت کا معاملہ ہے اس لئے خاموش رہنے یا کسی قسم کے سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے رجوع کیاجائے گا۔

اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ بل سپریم کورٹ کی ہدایت اوردستور ہند کے صریح منافی ہے‘‘۔میٹنگ میں موجود مفتی سلیم اختر مجددی نے کہاکہ ’’ حکومت کا یہ اقدام انتہائی خطرناک اور شریعت میں مداخلت ہے‘‘۔انہوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ ’’ مسلمانوں کے عائلی مسائل کی معلومات کے لئے مختلف زبانوں میں کتابچہ شائع کرواکر بڑے پیمانے پر تقسیم کیاجائے تاکہ مسلمانوں کو شریعت کا صحیح فہم ہونے کے ساتھ وہ حکومت کی سازش سے آگاہ بھی ہوسکیں‘‘۔اس موقع پر بڑی تعداد میں علما کرام موجود تھے۔