جمعرات کو اسلام جمخانہ میں وکلاء نے حکومت کے ذریعہ پاس کردہ بل کے نقائص ‘ خدشات اور اس کے نقصانات پر اظہار خیال کیا‘ سات پھیرے لینے والو ں کو سات سال کی سزا ء ہوگی
مرین لائنس۔ طلاق ثلاثہ بل جس انداز میں مرکزی حکومت نے لوک سبھ میں پاس کروایا اس کے بعد سے قانون کے ماہرین ‘ عوام الناس اور ممتاز شخصیات کی جانب سے حکومت کی نیت اور طریقہ کار پر نہ صرف مسلسل سوال قائم کئے جارہے ہیں بلکہ صدائے احتجاج بھی بلند کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں جمعرات کی شام کو اسلام جمخانہ ( مرین لائنس) میں ایک میٹنگ کا اہتمام کیاگیا جس میں وکلاء نے بل کے نقائص ‘ پیدا ہونے والے خدشات اور نقصانات پر تبادلہ خیاک کیا۔ وکلاء نے اپنے اپنے انداز میں قانونی پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور کئی سوالات قائم کرکے حکومت کو بھی گھیرنے کی کوشش کی۔
ایڈوکیٹ قاضی مہتاب حسینی نے کہاکہ ’’ ایک نشست میں تین طلاق دینا درست نہیں ہے ‘ اس سے قطع نظر کہ وہ واقع ہوجاتی ہے لیکن اس تعلق سے حکومت جو بل لارہی ہے اور جس طرح اس میں ایک نشست میں تین طلا ق دینے والے کے لئے 3سا ل کی سزا تجویز کی گئی ہے تو کیا 7پھیرے لینے والوں کو سات سال کی سزاہوگی؟‘‘۔ ایڈوکیٹ قاضی مہتاب نے اعداو شمار کی روشنی میں خواتین کی حالت زار واضح کرتے ہوئے بتایا کہ’’ اس وقت ملک میں چار کرور سے زائد بیوائیں ہیں ‘ بیس کروڑ عورتیں اچھوت ہیں جبکہ بیس لاکھ سے زائد عورتوں کو ان کے شوہروں نے اس انداز میں چھوڑ رکھا ہے کہ وہ نہ تو اپنے شوہروں کے ساتھ ہیں اور نہ ہی ان کو علیحدہ کیاگیا ہے۔ان حالات میں حکومت ان خواتین کے لئے کیا سونچ رہی ہے‘‘۔
انہوں نے حکومت کی نیت پر سوال قائم کرتے ہوئے کہاکہ ’’ دیگر مسائل کے مقابلے میں تین طلاق کے معاملات برائے نام ہیں پھر بھی اسے اس طرح سے پیش کیاجارہا ہے جیسے سب سے بڑا اور اہم یہی مسئلہ ہو۔ اس کے علاوہ عدالتوں میں جاری معاملات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مسلم خواتین سے کہیں زیادہ تکلیف میں ہندو ماں اور بہنیں ہیں‘‘۔ایڈوکیٹ مبین سولکر نے یہ تجویز رکھی او رمشورہ دیا کہ ا’’ اگر سلیکٹ کمیٹی کے پاس بل بھیج دیاجائے تب بھی ہمیں خاموش نہیں رہنا چاہئے اور ایک ایسی ٹیم تشکیل دینی چاہئے جس میں علماء او روکلاء دونوں شامل رہیں۔ بل سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کے بعد یہ ٹیم سلیکٹ کمیٹی کے اراکین سے ملاقات کرکے ان کے سامنے اس بل کی خامیوں او رعورتوں کے حق میں اس کے نقصانات سے آگاہ کرائے ک یاس بل کے منظور ہونے پر مردوں میں ایک فیصد نقصان ہوگاتو عورتوں کو ایک سوفیصد نقصان کا سامنا کرنا پڑیگا‘‘۔
انہوں نے اس سلسلے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ’’ تین طلاق کے معاملات میں ملزم قراردئے جانے والوں کوضمانت دی جاتی ہے‘ یہ ملزم کا قانونی حق ہے۔ طلاق ثلاثہ کے کیس میں مردو کو ضمانت قبل از وقت گرفتاری مل سکتی ہے اور وہ پیشگی ضمانت بھی حاصل کرسکتا ہے ‘ ایسے میں شوہر کا رویہ اور سخت ہوسکتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا نقصان عورت کو ہی ہوگا‘‘۔ ایڈوکیٹ اعجاز نقوی نے کہاکہ’’ ہمیں اتحاد باہمی کو مضبوط کرنے کے ساتھ طلاق ثلاثہ کے معاملے میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہئے‘‘۔اس کے علاوہ انہوں نے بڑا پرامن مارچ نکالنے کی بھی تجویز رکھی۔
ایڈوکیٹ یوسف ابرہانی نے کہاکہ ’’ یہ بل دراصل ووٹ بینک کی سیاست کا حصہ ہے اسی سبب سیاسی جماعتیں کھل کر کچھ کہنے سے کترارہی ہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں بیداری کے لئے جگہ جگہ پرامن مارچ کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ ایڈوکیٹ عبدالوہاب نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے بل میں تین سال کی سزا پر سوا ل قائم کرتے ہوئے کہاکہ ’’ شوہر کے جیل سے باہر آنے کے بعد میاں بیوی کے درمیان کے بجائے مزید تلخی اور مسائل پیدا ہوں گے‘‘۔ دیوان خاص میں ہوئی اس میٹنگ میں مالانا سید اطہر علی ‘ محمد سعید نوری‘ سرفراز آرزو اور دیگر افراد شریک تھے۔