طلاق ثلاثہ بل، مسلم پرسنل لاء بورڈ اور حیدرآباد

ٹی آر ایس کا پارلیمنٹ میں رول مخالف مسلم۔ حلیف اپنی ساکھ بچانے میں مصروف

حیدرآباد۔31جنوری (سیاست نیوز) شہر میں منعقد ہونے جا رہے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس میں تلنگانہ راشٹر سمیتی کے خلاف قرار داد منظور کی جائے گی!تلنگانہ راشٹر سمیتی نے طلاق ثلاثہ مسئلہ پر حلیف جماعت کے مشورہ کے سبب غیر حاضر رہنے اور خاموشی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس فیصلہ کے باعث لوک سبھا میں حلیف جماعت کے رکن پارلیمنٹ کو مخالف طلاق ثلاثہ مباحث کے دوران کوئی تائیدحاصل نہیں ہوئی ۔طلاق ثلاثہ بل پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کے بعد منعقد ہونے والے مسلم پرسنل لاء بورڈ کا یہ پہلا اجلاس ہے جو کہ ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں منعقد ہونے جا رہاہے او رتلنگانہ میں ٹی آر ایس برسراقتدار ہے جس نے لوک سبھا میں طلاق ثلاثہ بل پر اپنا کوئی موقف پیش نہیں کیا بلکہ غیر حاضری کے ذریعہ بل پیش کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کو مستحکم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ اسی طرح تلنگانہ راشٹر سمیتی نے راجیہ سبھا میں بھی غیر حاضری کے ذریعہ حکومت کو طاقت بخشنے کی کوشش کی ۔ تلنگانہ راشٹر سمیتی کے ارکان پارلیمان کا ادعا ہے کہ انہوںنے پارٹی کی پالیسی جو کہ حلیف جماعت کے صدر و رکن پارلیمنٹ سے مشاورت کے بعد تیار کی گئی تھی اسی پر عمل کیا ۔ بتایاجاتاہے کہ شہر حیدرآباد میں ہونے والے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس میں ٹی آر ایس کے موقف پر کوئی تبادلہ خیال نہ کئے جانے اور ٹی آر ایس کے موقف کو بہتر قرار دینے کیلئے بورڈ کے ذمہ دار کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جنہوں نے تلنگانہ راشٹر سمیتی کے ارکان پارلیمان سے ملاقات کرتے ہوئے طلاق ثلاثہ مسئلہ پر تلنگانہ راشٹر سمیتی سے اظہار تشکر کیا ۔ باوثوق ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق شمالی ہند سے تعلق رکھنے والے مسلم پرسنل لاء بورڈ میں شامل ذمہ داران جو سیاسی بصیرت کے حامل ہیں وہ اس اجلاس سے قبل تلنگانہ راشٹر سمیتی کے طلاق ثلاثہ مسئلہ پر موقف کی وضاحت طلب کر رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اگر تلنگانہ راشٹر سمیتی کا موقف واضح نہیں ہے تو ٹی آر ایس کے خلاف کیوں قرار داد پیش نہیں کی جانی چاہئے!

بورڈ کے ذمہ داران کے اس استدلال سے بچنے کے لئے کی جانے والی کوشش کے طور پر برسراقتدار جماعت کے سرکردہ قائد و ریاستی وزیر کو اجلاس کی استقبالیہ کمیٹی میں شامل رکھا گیا ہے اور بورڈکے ان عہدیداروں کی جانب سے جو شہر میں ہیں ان کے ذریعہ تلنگانہ راشٹر سمیتی کو کلین چٹ دلوانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ اجلاس کے دوران شمالی ہند سے تعلق رکھنے والے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داروں کو گمراہ کیا جاسکے۔ 9تا11 فروری شہر میں منعقد ہونے جا رہے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس کے متعلق یہ بات کہی جانے لگی ہے کہ قبل از وقت انتخابات کے امکانات کے پیش نظر طاقت کے مظاہرہ کیلئے اس اجلاس کا حیدرآباد میں انعقاد عمل میں لایا جا رہاہے اور اس بات کااحساس خود مسلم پرسنل لاء بور ڈ کے عہدیداروں میں بھی پیدا ہونے لگا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس کے متعلق شہر حیدرآباد کے صحافتی حلقوں کے علاوہ سیاسی حلقوں میں بھی یہ بات کہی جانے لگی ہے کہ اس اجلاس کے ذریعہ مخصوص سیاسی جماعت اپنے استحکام کی کوشش میں ہے کیونکہ اجلاس کے انعقاد کے معاملہ میں جن مقامات کا انتخاب کیا گیا ہے اور جن شخصیتوں کو ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں وہ مخصوص سیاسی وابستگی کے حامل ہیں ۔ بابری مسجد مقدمہ کے علاوہ طلاق ثلاثہ مسئلہ پر اس اجلاس کے دوران مباحث کا امکان ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کئی موضوعات پر علحدہ سیشن منعقد ہوں گے لیکن یہ بات واضح نہیں کی جا رہی ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے کیا تلنگانہ راشٹر سمیتی کے اقدام کی مذمت کی جائے گی یا نہیں! ٹی آر ایس ارکان پارلیمان کے ادعا کو درست مان لیا جائے تو مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داروں پر اس بات کی بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ان ارکان و ذمہ داروں کی بھی باز پرس کریں جو تلنگانہ راشٹر سمیتی کو اپنا حلیف قرار دیتے ہیں اور ان کو بھی جوابدہ بنائیں جنہوں نے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں طلاق ثلاثہ بل کی پیشکشی اور مباحث کے دوران غیر حاضر رہنے والے ارکان پارلیمان سے ملاقات کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا جبکہ قانون ساز ادارو ںمیں قانون سازی اور رائے دہی کے دوران غیر حاضری کو مخالفت نہیں بلکہ حکومت کی بالواسطہ تائید تصور کیا جاتاہے اگر کوئی جماعت بطور احتجاج واک آؤٹ کرتے ہوئے بل پر رائے دہی یا مباحث میں حصہ نہیں لیتی ہے تو اسے احتجاج تصور کیا جاسکتا ہے لیکن تلنگانہ راشٹر سمیتی نے احتجاج یا واک آؤٹ نہیں کیا بلکہ وہ غیر حاضر رہی ۔ شمالی ہند سے تعلق رکھنے والے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک انتہائی اہم ذمہ دار نے لوک سبھا میں طلاق ثلاثہ بل کی منظوری کے فوری بعد اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بورڈ میں شامل ایک سیاسی قائد کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے بل کی پیشکشی سے قبل ملاقات نہیں کی تھی۔