طلاق ثلاثہ اور کثرت ازدواج کی مخالفت،مرکز کا حلف نامہ

نئی دہلی 7 اکٹوبر ( سیاست ڈاٹ کام )دستور ہند کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مرکزی حکومت نے آج سپریم کورٹ میں ایک حلفنامہ داخل کرتے ہوئے طلاق بائین یا طلاق سہ بارہ اور مسلمانوں میں کثرت ازدواج کی مخالفت کی ہے ۔ حکومت نے اس عمل کی مخالفت کی ہے جس میں کوئی مسلم شخص اپنی شریک حیات کو بیک وقت تین طلاق دے سکتا ہے ۔ حکومت نے عدالت میں اپنا حلفنامہ داخل کرتے ہوئے کہا کہ جنسی مساوات اور خواتین کی عزت و وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ۔ ملک میں طلاق سہ بارہ کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے اور اس مہم کی مسلم برادری کی جانب سے شدت سے مخالفت کی جا رہی ہے ۔ کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ سے 2 ستمبر کو کہا تھا کہ پرسنل لا کو اصلاحات کے نام پر بدلا نہیں جاسکتا ۔ پرسنل لا بورڈ نے کہا تھا کہ اگر میاں بیوی میں اختلافات پیدا ہوجائیں تو کسی مجرمانہ طریقہ کو اختیار کرنے کی بجائے یہی بہتر ہوتا ہے کہ یہ اپنی راہیں الگ کرلیں۔ پرسنل لا بورڈ کے اس بیان پر بھی تنازعہ پیدا ہوگیا تھا ۔ مرکزی حکومت نے اپنے حلفنامہ میں یہ بھی کہا کہ طلاق سہ بارہ کو مذہب کا لازمی حصہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

حکومت نے کہا کہ مذہبی عوامل کی بنیاد پر کسی بھی خاتون کی شخصی خواہشات اور اس کے حقوق کو تلف نہیں کیا جاسکتا بھلے ہی اس خاتون کا کسی بھی مذہب سے تعلق ہو ۔ مسلمانوں میں اس طرح کے عوامل کی افادیت کو چیالنج کرتے ہوئے سائرہ بانو کے بشمول دیگر کئی خواتین کی جانب سے داخل کردہ درخواستوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مرکز نے پہلی مرتبہ دستور کے تحت جنسی مساوات کے حقوق کی حمایت کی ہے ۔ دستور کے اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس نے کہا ہے کہ ایسا کوئی بھی عمل جس میں خواتین کو سماجی ، مالی اور جذباتی طور پر نقصان پہونچایا جاتا ہے تو یہ دستور کے آرٹیکل 14 اور 15 (حقوق اور مساوات) کے یکسر مغائر ہے ۔ مرکز نے اپنے 29صفحات پر مشتمل حلف نامے میں کہا کہ خواتین کے جنسی مساوات اور وقارپر ہرگز سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ۔ ان حقوق کو پورے جذبہ و استقلال کے ساتھ نافذ العمل کیا جانا چاہئیے ۔ مرکز کے حلف نامہ میں بتایا گیا کہ خواتین کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت والے ملک میں ہونے والی ترقی اور پیشرفت میں یکساں حصہ لینے کا حق ہے ۔ وزارت انصاف اور قانون نے ایک فہرست بھی پیش کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان ، بنگلہ دیش ، ترکی اور افغانستان کے بشمول کئی اسلامی ممالک نے اپنے نکاح قوانین میں تبدیلیاں لائی ہیں ۔