طالب حسین سے ایک ملاقات جس نے کتھوا سانحہ کو قومی اسٹوری میں تبدیل کردیا

جموں او رکشمیر۔بکروالا سماج سے تعلق رکھنے والے نوجوان وکیل اور سماجی جہدکار طالب حسین جس نے کتھوامیں اٹھ سال کی معصوم کے عصمت ریزی او رقتل کے واقعہ کو سرخیوں میں لانے میں اہم رول ادا کیا۔

ممتاز صحافی برکھا دت کے ساتھ ایک انٹرویو میں حسین نے کتھوا میں پیش ائے بے رحمانہ واقعہ کے بعد پیش ائے ائی جدوجہد کا انکشاف ہے۔انہوں نے ہندو ایکتا منچ کی تشکیل اور عصمت ریزی کے ملزمین کی دفاع کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہاکہ’’ کیو ں نہیں ہندو مسلم ایکتا منچ اور سکیولر ایکتا منچ کا قیام عمل میں لایا‘‘؟۔طالب حسین نے کہاکہ ’’ میں خود بکروال سماج سے آتا ہوں‘ اسی گاؤں میں میرا بچپن گذرا ہے۔

مجھے جنوری17کے وقت اس بات کی معلومات ملی کہ ‘ کچھ اس طرح کا واقعہ پیش آی اہے‘ میں نے مقامی پولیس سے بات کی اور احتجاج کی تیاری شروع کردی‘‘۔

ملزمین کے متعلق سوال پر حسین نے کہاکہ’’ سانجی رام نے گاؤ ں والوں سے کہاکہ مسلم بکروالا قبائیلوں کو اراضی کے استعمال کرنے کی منظوری نہیں دیں اور انہیں میویشوں کا چھوڑ نے نہ دیں‘ جس کے لئے بکروالا پیسے بھی ادا کرتے ہیں‘ لاکھوں روپئے دیتے ہیں جبکہ جو گھاس اور پتے بکروالا قبائیلی استعمال کرتے ہیں اگلے سال وہ قدرتی طورپر دوبارہ ہرے بھر ے ہوجاتے ہیں۔

وکیل وسماجی جہدکار نے کہاکہ’’ یہ ہندو ایکتا منچ ہندوؤں کو بچانے کے لئے نہیں بلکہ عصمت ریزی کرنے والوں کو بچانے کی کوشش کی‘‘۔حسین نے اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ’’ مجھے فخر ہے میں جموں میں بڑا ہوا ہوں۔

میرے بہتر دوستوں میں ہندوہیں۔ میں ننگے پاؤں اسکول جایا کرتا تھا کیونکہ میرے پاس جوتے نہیں تھے‘ میرے ایک ہندو دوست کی ماں نے جوتوں کا تحفہ دیا ‘ آج مجھے ان دنوں کو یاد کرکے رونا آتا ہے‘‘۔

یہ سیاست دان ہیں جو دونوں طبقات میں رغنہ پیدا کررہے ہیں۔