نئی دہلی : شاہی امام مولانا سید احمد بخاری نے گذشتہ دنوں روسی صدر کی پہل پر طالبان کے ساتھ ہونے والے کثیر فریقی مذاکراتی عمل میں ہندوستان کی شرکت کو افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں ایک مثبت قدم قرار دیا ۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ حکومت اپنے ملک میں گمراہ نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے ان کے ساتھ مذاکرات کیوں نہیں کرتی ؟
مولانا بخاری نے اپنے بیان میں زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے طالبان کے ساتھ جو پالیسی اختیار کی ہے و ہیں پالیسی کشمیر کے علاحدگی پسند رہنماؤں ، برگشتہ کشمیری نوجوانوں ، ماؤنوازوں ،نکسل وادیوں او رعلیحدگی پسندوں کے معاملہ میں بھی اختیار کرے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت افغانستان میں قیام امن کیلئے تو کوشاں ہیں لیکن اپنے ملک میں قیام امن کے بارے میں اس قسم کی کوئی کوشش نہیں کرتی ۔ شاہی امام نے مزیدکہا کہ ماؤ نوازوں یا د وسرے دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتیں ہوجاتیں ہیں ۔ پھر بھی انہیں دہشت گرد نہیں کہا جاتا ۔حکومت اور ملک کے سیاستدانوں نے کئی بار کہا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کو اسلام اورمسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں جو بھی انتہا پسند اور شدت پسند تنظیمیں ہیں وہ جارحانہ روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ تمام لوگ ہمارے اپنے ہیں اور یہی کی مٹی سے ان کا تعلق ہے ۔لیکن وہ گمراہ ہوگئے ہیں ۔ قومی دھارے سے کٹ گئے ہیں ۔ یا پھر بیرونی طاقتو ں کی سازشوں کے آلہ کار بن گئے ہیں ۔ شاہی امام نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام لوگوں کو قومی دھارے میں لایاجائے ۔مولانا بخاری نے کہا کہ ہندوستان ایک خاندان کے مانند ہے۔
اگر گھر کا کوئی فرد گمراہ ہوجائے یا کسی بیرونی طاقت کا شکار ہوجائے تو کیا اسے راہ راست پر لانے کی کوشش نہیں کریں گے ؟ کیا ہم اس سے قطع تعلق کرلیں گے ؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک باپ کی طرح ان کے شفقت سے پیش آنا چاہئے ۔ او رہمیں ہر وہ قدم اٹھانا چاہئے جس یہ نوجوان گھر اوپس لوٹ آئیں او رملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں ۔