تل ابیب۔ مشرقی وسطیٰ میں امریکہ کوڈکٹیٹرز اور مطلق العنان حکمراں ہی راس آتے ہیں کیونکہ عرب ممالک میں عوامی امنگوں کے مطابق قائم ہونے والی حکومتیں صرف امریکہ نہیں بلکہ صیہونی ریاست کے لئے ایک بڑا مسئلہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس کا اعتراف صیہونی ریاست کے ایک سابق ممبر پارلیمنٹ نے کیا ہے۔
سابق ممبر پارلیمنٹ یوسی بلین نے عرب ممالک میں کسی قسم کی جمہوریت کو اسرائیل کے لئے بڑا خطرہ قراردیتے ہوئے کہاکہ ہے کہ اس سے ان ممالک میں اسرائیل مخالف سوچ کو مضبوطی حاصل ہوگی
۔یوسی بلین نے ایک اخبار سے بات چیت میں کہا’’ ہم عرب کے مطلق العنان حکمرانوں کو پسند کرتے ہیں‘‘ ۔ اسرائیل لیڈر نے مزیدکہاکہ’’ عرب کے بیشتر لیڈر ان علاقوئی امور میں ایران کی مداخلت کے بارے میں پریشان ہیں اور ان کی توجہہ مسئلہ فلسطین کی جانب ہر گز بھی نہیں ہے‘‘۔
قابل ذکر ہے کہ عرب کے ممالک مسئلہ فلسطین کے سلسلہ میں زبانی خرچ سے زیادہ ہوآگے نہیں بڑھتے‘ وہ فلسطین کی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں ‘ تاہم صیہوبی ریاست کے خلاف کسی بھی طرح کا عملی اقدام نہیں کرتے۔
تیوسی بیلن نے کہاکہ ’’ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمارے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے او راستنازعہ کے حل ہونے کے باوجود پڑوسیت ممالک کے ساتھ ہماری صورتحال جوں کی تو رہے گی۔
یاد رہے کہ فلسطینی اتھاریٹی کئی دہائیوں سے دوریاستی حل کی بنیادپر اسرائیل سے اس مسئلہ کا تصفیہ چاہتی ہے ‘ تاہم صیہونی ریاست کو لگتا ہے کہ جب عرب کے ممالک اس تنازعہ کے موجود ہونے کے بعد بھی ان سے خفیہ طور پر مضبوط تعلقات استوار کئے ہوئے ہیں‘ ایسے میں فلسطین کے عوام کو ایک علیحدہ ریاست دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ جمعہ کے روز امریکی افسران نے کہاکہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ مقبوضہ یروشلم کو اسرائیل کا نیا درالخلافت تقسیم کرنے کا اعلان کرسکتے ہیں اور امکان یہ بھی ہے کہ وہ یروشمل میں امریکہ سفارتخانہ منتقل کرنے کا فیصلہ بھی لے سکتے ہیں۔