صہیب الیاس ۔ اٹھارہ سال اس گناہ کی سزا کاٹی ہے جو میں نے کیا ہی نہیں

ہندوستان کے مشہور اور پہلے جرائم کی تحقیقات پرمشتمل ٹیلی ویثرن شو’’ انڈیاس موسٹ وانٹیڈ‘‘ کی انہوں نے میزبانی کی ہے اور وہ نام صہیب الیاسی ہے۔ ایک ہی رات میں سب کچھ گنوادیا۔ ان کی بیوی متعدد چاقو کے متعدد ضربات سے جانبر نہ ہوسکی۔

الیاسی پر بیوی کے قتل کا الزام لگا اور انہیں عمر قید کی سزا ہوگئی۔چونکہ دینے والی تبدیلی میں پچھلے ہفتہ دہلی ہائی کورٹ نے اعلان کیا ہے کہ الیاسی قصور وار نہیں ہے۔ فیصلے الیاسی کے لئے آج بھی ایک خواب سے کم نہیں ہے۔

اندر سے ٹوٹے ہوئے الیاسی نے کہاکہ’’ میں پچھلے اٹھارہ سالوں سے کہہ رہاہوں میں بے قصور ہوں۔ اب معزز عدالت نے یہی کہا ہے۔

میری وقت ‘ طاقت اور خود اعتمادی‘او رکیریر کی تباہی کا کوئی معاوضہ نہیں ہے‘ اٹھارہ سال کھوئیں ہیں۔میں شکر گذار ہوں پروردگار کا اور عدلیہ جس نے بالآخر مجھے بے قصور مانا ہے‘‘۔

مغموم آواز میں الیاسی نے کہاکہ ’’مجھے اب بھی یقین نہیں ہورہاہے کہ میں ایک آزاد شخص ہوں‘ تہاڑ جیل اب میرا گھر نہیں ہے‘ میں اپنے حقیقی گھر میں اپنے بیٹی کے ساتھ ہوں‘ آپ سے بات کررہاہوں۔ میں جیل سے آزادی کو ایک خواب مان رہاتھا۔ میں محسوس کررہاہوں کہ یہ ایک خواب ہے‘‘

پچھلے اٹھارہ سالوں کے دوران زندگی کیسی رہی؟۔

ایک لفظ میں جہنم۔مجھے جیل میں بھگوات گیتا کے مطالعہ نے مضبوط کیا۔ میں اس کا مطالعہ کرتا اور بتائے گئے راستے پر ہوئے مضبوط ہوگیااور اب میں چاہوں گا ہر ہندوستانی شہری کے پاس یہ پہنچے جس کی وجہہ سے میں آج یہاں ہوں‘‘۔

الیاسی اپنے پراجکٹ گیتا اور اپونی شادس کو آسان زبان میں ترجمہ کرنے پر کام کررہے ہیں۔الیاسی نے کہاکہ’’میں جانتا ہوں پچھلے سالو ں میں جرائم کے بہت سارے تحقیقاتی شوز میں نے کئے ہیں۔ مگر میں اپنے شو کا جائزہ لینا چاہتاہوں۔

اس سے قبل یہ ممکن نہیں تھا کیونکہ ملک بھر کے جرائم کے واقعات کی پڑتال کرنے والا خود ایک مجرم بنا ہوا تھا۔ میں اپنا شو دوبارہ شروع کرنا چاہتاہوں انڈیا موسٹ وانٹیڈ تاکہ تہاڑ میں جن ساتھی قیدیوں سے میری ملاقات ہوئی ہے ان کی کہانیاں بیان کرسکوں۔ان میں سے کئی نے تو متعدد مرتبہ قتل کیاہے۔

مگر ان کی آنکھیں کچھ او ربیان کرتی ہیں۔میں جرائم کو اکسانے والے واقعات کی تہہ میں جانا چاہتاہوں۔ قانون صرف سیاہ اور سفید دیکھتا ہے۔

جرم کے واقعات میں کئی بوہرے علاقے بھی ہوتے ہیں۔ میں اپنے شوکو ازسر نو شروع کرنا چاہتاہوں تاکہ یہ پوشیدہ کہانیوں کو جس میں قتل کے مجرمین ہیں بتاسکوں‘‘

الیاسی نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لئے انہیں اٹھارہ سال لگ گئے۔مگر ا ب و ہ جسمانی ‘ ذہنی اور روحانی طور پر بلکل آزاد ہیں۔